مسخرہ حکومت سے مایوسی شفقت ضیاء محسن انسانیتﷺ نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں جب وہ بات کرتا ہے جھوٹ بولتاہے، جب وعدہ کرتا ہے خلاف ورزی کرتا ہے اور جب اسے کوئی امانت دی جاتی ہے تو وہ اس میں خیانت کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے جھوٹے پر لعنت فرمائی ہے جس پر اللہ لعنت فرما دے اس سے خیر کیسے نکل سکتی ہے۔ بد قسمتی سے منافقت تیزی سے پھیل رہی ہے سچ اور جھوٹ کی تمیز ختم ہوتی جا رہی ہے جو تباہی کی علامت ہے۔ اس کی بڑی ذمہ داری قیادت پر عائد ہوتی ہے دنیا کے سب سے بڑ ے رہنما حضرت محمد ﷺ کے دشمن بھی یہ مانتے تھے کہ آپ ﷺ سچے ہیں یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ نے ایسے لوگ تیار کیے جو سچے، کھرے اور صاف ستھرے کردار کے مالک تھے دشمن بھی ان کے معترف تھے لیکن جب قیادت منافقین کے ہاتھوں میں آئی تو ذلت خواری مقدر بنی۔ جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے حکومت منتخب ہوتی ہے، سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے اپنا پروگرام رکھتی ہیں جس کو دیکھتے ہوئے عوام اپنا ووٹ استعما ل کر تے ہیں بد قسمتی سے سیاسی جماعتوں کی قیادت عوام سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے جھوٹے وعدے، اعلانات اور دعوے کرتی ہیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ عوام کا سیاسی رہنماؤں پر اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے جو نیک شگون نہیں ہے اس لیے سیاسی قیادت کو عوام میں معتبر ہونے کے لیے سوچ سمجھ کر بات کرنی چاہیے۔ بقول شاعر: جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو فراز آدمی کو صاحب کردارہونا چاہیے گزشتہ دنوں نواز شریف کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے پر عمران خان سمیت قیادت نے اپنی باتوں سے یو ٹرن لیا ایسے میں پی ٹی آئی حکومت کے غیر مسلم ممبر اسمبلی رمیش کما ر اور وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد اپنی با ت پر ڈٹے رہے جس سے ثابت ہوا کہ صاحب کردار بھی موجود ہیں۔ ابھی نواز شریف کی بیماری کا موضوع ختم نہیں ہوا تھا کہ حکومت نے سابق ڈکٹیٹرمشرف کے خلاف اپنے بیانیے سے یوٹرن لے لیا۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ مشرف نے آئین توڑا ہے یہ ملک کا سب سے بڑا مجرم ہے، حکومت ایسے مجرم کو عبرت کا نشان بنائے تا کہ آئندہ کسی کو قانون توڑنے کی جرأت نہ ہو چند روز پہلے سپریم کورٹ کے معزز ججز کو کہتے تھے کہ طاقتور کے لیے الگ قانون نہیں ہونا چاہیے آج ایک طاقتور کے لیے خود میدان میں آگئے اور خصوصی عدالت نے جو فیصلہ محفوظ کیا ہو ا تھا اسے ہائی کورٹ کے ذریعے رکوا دیا،جس سے ثابت ہو ا کہ آپ جو دو نہیں ایک پاکستان کا دعویٰ کر رہے ہیں وہ عوام کو بے وقوف بنانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ اقتدار کے لیے عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ایسی باتیں کرتے تھے۔ آپ اقتدار میں ہیں تو وہ سارے لوگ جو کل ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ تھے وہ آپ کی کابینہ میں شامل ہیں جس پر کوئی اعتراض نہیں ہے، الطاف حسین کو سب سے بڑا لیڈر کہنے ولا وکیل آج آپ کا وزیر قانون ہے، اسی طرح وہ لوگ جنہیں چور ڈاکو کہتے آپ تھکتے نہیں تھے آج وہ سب آپ کے ساتھ ہیں جو چور کل آپ کو قبول نہیں تھے آج اقتدار کے لیے سب قبول ہیں۔کل تک جو سب سے بڑ اڈاکو تھا نا اہل نا لائق تھا آج وہ آپ کی آنکھوں کا تارا ہے۔ اقتدار سب کی طرح آپ کو بھی عزیز ہے اور اس کی خاطر آپ بھی سارے اصولوں دعوؤں سے یوٹرن لینے کے لیے ہر وقت تیار ہیں۔ کردارنئے آتے جا رہے ہیں ناٹک وہی پرانے چل رہے ہیں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع جیسے احساس معاملے میں آپ کی ٹیم نے جس نااہلی اور ناانصافی کا ثبوت دیا اس کے بعد باقی کیا رہتاہے۔ آپ کو 4دفعہ نوٹیفکیشن کرنا پڑا، چیف جسٹس سپریم کورٹ نے یہ تک کہا کہ ان کی ڈگریاں چک کی جائیں جنہوں نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنایا ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود آپ نے اپنی ٹیم کو تبدیل کرنے اور کارروائی کے بجائے اپوزیشن پر تنقید کی جس کا اس موقع پر مثالی کردار رہا اور ملک دشمن الطاف حسین کو آئیڈیل سمجھنے والے کو دوبارہ وزیر قانون بنا لیا۔ یہ ہے وہ دوہرا معیار جس سے ثابت ہوا کہ کچھ نہیں بدلہ صرف چند چہرے بدلے ہیں۔ آرمی چیف جس نے اتنی نالائق اور نااہل حکومت کو چلانے میں اہم کردار ادا کیا ورنہ نہ ہی بیرون ملک انہیں کوئی گھاس ڈالتا تھا اور نہ ہی اس صورتحال میں ملک چل سکتا تھا، اس کی مدت ملازمت میں توسیع پرایسا رویہ نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ملک کی معیشت کا جو حال ہے غریب ہی نہیں متوسط طبقے کی بھی چیخیں نکل گئی ہیں، اوپر سے حکومتی وزراء کے بیانات زخموں پرنمک کا کام کر رہے ہیں۔ ٹماٹر 300روپے ہوتا ہے اور مشیر خزانہ 17روپے بتا تے ہیں اور مشیر محترمہ مٹر 5روپے بتاتی ہیں شہد والے وزیر نے تو یہ تک کہہ دیاقیمتیں بڑھتی ہیں تو ہمارے ہی بھائیوں کو فائدہ ہوتا ہے جبکہ وزیر اطلاعات کے پی کے نے ٹماٹر کی جگہ دہی کے استعمال کا مشورہ دے دیا۔ایک اور با کمال وزیر محترمہ زرتاج گل نے ارشاد فرمایا کہ سموگ دھرنے کی وجہ سے پھیلی ہے ایسی حکومت سے پھر بھی کسی کو یہ امید ہے کہ ملک میں بہتری آئے گی، ایک کروڈ لوگوں کو روزگار ملے گا، مہنگائی کم ہو گی تو یہ حماقت ہی ہو سکتی ہے بقو ل حکومت کے اتحادی شجاعت حسین اگر مزید 6ماہ یہ حکومت رہی تو حکومت لینے کے لیے کوئی بھی تیار نہ ہو گا۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے عمران خان اور ان کی ٹیم دعوے کرتی تھی کہ کرپشن کی وجہ سے لوگ ملک میں سرمایا نہیں بھیج رہے جب ہماری حکومت آئے گی تو ڈالروں کی بارش ہو گی۔کرپشن کے 200 ارب واپس لائیں گے، 100ارب جن کو دینا ہے ان کے منہ پر ماریں گے اور باقی قوم پر خرچ کریں گے۔ وہ روزانہ 10بلین ڈالر کی کرپشن چوروں کے جانے کے بعد ختم ہو گئی تو پھر ملک کی یہ صورتحال کیوں ہے؟ وہ قرضے آئی ایم ایف کے جن کو لینے کے بجائے خود کشی کی باتیں کرتے تھے وہ لینے کے باجود ملک میں تبدیلی کیوں نہیں آئی؟ کل جو غریب 2روٹیاں کھا کر گزار ا کر تا تھا اسے آج ایک روٹی بھی میسر نہیں۔ ا ب تو درمیانے طبقے کو بھی سبزی دال مشکل ہو رہی ہے، کیا اسی تبدیلی کا وعدہ تھا؟ یہی وجہ ہے کہ اب عوام زرداری کے دور سے بھی برے حالات محسوس کر رہے ہیں،اب تو کرکٹ کا بھی برا حال ہو گیا ہے، اس کا تو تجربہ تھا اس میں ہی بہتری آجاتی تو قوم کو چھوٹی سی خوشی مل جاتی۔ حکومت اور کرکٹ کی ٹیم آپ نے مسخرہ بنا دی ہے جس سے عوام کو ہی نہیں لانے والوں کو بھی یقینا مایوسی ہوئی ہو گی۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔