آزاد کشمیر، گلگت،حریت کانفرنس پر مشتمل سفارتی کونسل کی ضرورت ۔ سچ تو یہ ہے بشیر سدوزئی ۔ یہ انتہائی تشویش اور افسوس ناک امر ہے کہ ساری دنیا کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے اپنے عوام کو بچانے کے لیے نت نئی تدابیرں اور حکمت عملی میں مصروف ہے ۔ مودی سرکار مقبوضہ کشمیریوں میں نسل کشی کر رہی ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 14 جون 2020 کو جاری کی گئی تازہ رپورٹ میں انتہائی خطرے ناک صورت حال کا انکشاف کیا اور بتایا کہ بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں زیر زمین ٹارچر سیل قائم کئے ہوئے ہیں جہاں نہ صرف نوجوانوں کو بلکہ نوجوان لڑکوں کو بھی لایا جاتا ہے ۔ رپورٹ میں پہلی مرتبہ انکشاف ہوا کہ حال ہی میں فوج کے ان زیر زمین ٹارچر سیل سے 500 لڑکیوں کی لاشیں اور 200 نیم مردہ حالت میں دریافت ہوئی ہیں ۔ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ زیر زمین ان ٹارچر سیلوں میں اغواء کی گئی عورتوں پر تشددد اور مظالم کی بھارتی فوج نے انتہاء کر دی ہے۔فوج نے خفیہ ٹارچرسیل بنا رکھے ہیں جہاں لڑکیوں کولایا جاتا ہے اور ان پر انسانی سوز تشددد غیر انسانی فعل اجتماعی عصمت دری، بربریت و درندگی کی جاتی ہے۔ مظلوم لڑکیوں کے چیخنے چلانے کی آواز تک کسی کے کانوں تک نہیں پہنچتی جہاں سے بڑی دردناک رپورٹس آرہی ہیںَ۔ ٹارچرسیل سے نہ صرف 500 لڑکیوں کی لاشیں بل کہ 200 ایسی زندہ لڑکیاں بھی برآمد ہوئی ہیں جو بھارتی فوج کے مظالم سے زندہ لاشیں بن چکی تھی ۔ جب کہ بچوں کی ہلاکت کی واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ نے جاری سالانہ رپورٹ میں کہا کہ بھارتی فوج کی فائرنگ سے لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف بچوں کی ہلاکتوں اور تشددد کی اطلاعات ہیں جس پر اقوام متحدہ کو تشویش ہے۔ رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں سنٹرل ریزرو فورس اور پولیس کی مشترکہ کارروائیوں کے دوران 1 سے 17 سال کی عمر تک کے 15 بچوں (13 لڑکے ، 2 لڑکیاں) پر چھرے سے چہرے زخمی کرنے اور گرفتار کر کے تشددد کرنے کی تصدیق ہوئی ہے ۔15 جون کو پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران یو این سیکریٹری جنرل نے بتایا کہ۔"جموں و کشمیر میں ہونے والی بچوں کی ہلاکتیں حراست کے دوران تشدد ، فائرنگ ، بشمول پیلٹ گنوں اور سرحد پار سے گولہ باری سے ہوئی ہیں۔" جس پر اقوام متحدہ کو تشویش ہے۔سیکریٹری جنرل نے بھارتی حکومت سے کہا کہ بچوں پر یہ تشددد بند کیا جائے ۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر میں یہ سب کچھ بطور ریاستی پالیسی کر رہی ہے جس کی ریاست بھارت نے ان کو اجازت دے رکھی ہے اور کسی بھی فورم پر فوج کے کسی اقدام کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا ۔ ماضی قریب میں آرمی چیف نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ " کشمیر میں عورتوں کا ریپ جائز ہے اس طرح کا الزام کسی فوجی پر لگتا ہے تو اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔" گویا آرمی چیف نے فوج کو یہ کھلی چھٹی دے دی کہ جو چاہے حسن کرشمہ ساز کرے۔ ان خطرے ناک رپورٹ اور مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ابھی تک پاکستان، چین سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کی طرف سے سخت ردعمل سامنے نہیں آیا جس قدر ایک ماہ کے دوران مقبوضہ وادی میں مظالم کی انتہاء ہوئی ہے۔ تازہ رپورٹ کے مطابق سری نگر میں 7 لاکھ سے زائد غیر کشمیریوں کو ڈومسائل کے ساتھ کشمیر کی شہریت دی جا چکی ہے، آرمی میں داخل کئے گئے شیوا سینا کے غنڈوں کو کشمیر میں ریونیو کی زمین آلائٹ کی جا رہی ہے ۔ جب کہ چند دن کے دوران نامور کمانڈروں سمیت تین درجن سے زائد نوجوانوں کو مختلف الزامات لگا کر شہید کر دیا گیا۔افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ دنیا کا میڈیا اور انسانی حقوق کے ادارے نہ حل ہونے والے مسئلہ کرونا وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی گنتی پر لگ گئےجمہوری ممالک کی حکومتیں وضاحتوں اور اپوزیشن حکومتیں گرانے کی کوشش تک محدود اور میڈیا انہی خبروں کی تشہیر پر لگا ہوا ہے ۔ پاکستان میں یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا ہے۔ کرونا کی اس گہما گہمی میں پاکستان کی حکومت اور اپوزیشن کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو بھول ہی گئی۔ اس خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں ماضی میں ہونے والے مظالم کے سارے ریکارڈ خود ہی توڑ دے۔ حریت کانفرنس کی آواز کو ایسا دبا رکھا ہے کہ بزرگ رہنما علی گیلانی سمیت تمام رہنماء نظر بند یا ٹارچر سیلوں میں ہیں اور وادی میں ابلاغ کے تمام ذرائع نقل و حمل پر سخت پہرے بٹھا دئے گئے ہیں کوئی آواز باہر نہیں آ سکتی ۔ تازہ دم اطلاعات بہت زیادہ خطرے ناک، افسوس ناک شرم ناک اور دنیا کی توجہ طلب ہیں ۔ پاکستان اور وادی سے بائر کی کشمیری قیادت کو آج بہت زیادہ سفارت کاری اور کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔ مگر ہر طرف خاموشی ہے حتی کہ حریت کانفرنس پاکستان چپڑ بھی متحرک نظر نہیں آتا کیا مصلحتیں ہیں وہ بہتر جانتے ہیں ۔سفارتی سطح پر مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنے اور مظلوم کشمیریوں کی آواز بننے کی اس وقت سخت ضرورت ہے جو ہو نہیں رہی ، ورنہ بھارت تو کشمیریوں کی نسل کو ختم کرنے کے در پر ہے۔۔ بھارت میں انسانی حقوق کی کارکن اروں وھتی رائے بھی چند دن قبل بھارتی حکومت پر مسلمانوں کے خلاف اس طرح کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدامات روکنے کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ بھارت میں انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں نے اس سے پہلے بھی اطلاع دی تھی کہ جموں کشمیر کے شمال میں اجتماعی قبریں برآمد ہوئی ہیں ۔ دی ہندو اخبار کی رپورٹ کے مطابق ، انٹر نیشنل ہیومن راٹس کورٹ اور کشمیر میں عدالتِ انصاف کو (آئی پی ٹی کے) نامی این جی او کی جانب سے شائع کردہ رپورٹ میں کشمیر کے شمال میں پونچھ، راجوری، بانڈی پورہ ، بارہ مولہ اور کپواڑہ کے 55 دیہات میں کی جانے والی کھدائی کے دوران 2 ہزار 700 قبریں اور ان قبروں میں کم از کم 2 ہزار 900 افراد کی نعشوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی۔جب کہ 8000 افراد لاپتہ ہیں۔ لیکن بھارتی فورسز یا حکومت کی جانب سے اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی کیوں کہ مقبوضہ کشمیر میں فوج کے کسی بھی اقدام کو کسی عدالت یا ادارے میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا اس لئے تازہ اطلاعات میں ٹارچر سیل سے برآمد ہونے والی لڑکیوں کی لائشوں نیم زندہ اور تشددد کا نشانہ بننے والے بچوں کا مقدمہ بھی کسی فورم پر پیش نہیں کیا جا سکے گا سوائے بین الاقوامی اداروں کے ۔ بھارتی فوج سفاکانہ ریاسی دہشت گردی سےعوام کو خوف زدہ کر کے تحریک سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے ۔اس کی حکمت عملی ہے کہ ایسا تشددد کیا جائے جو انسانی برداشت سے باہر ہے ۔ اب یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل، تشدد، جبری اغوا، تذلیل، ہراس، جنسی بدسلوکی، زنابالجبر، غیر قانونی گرفتاریاں، مظاہرے، ماتم، ناکے، چھاپے، پولیس مقابلے اور جلاؤ گھیراؤ روزمرہ کا معمول بن چکا۔ مگر ان مظالم کو دنیا تک کیسے پہنچایا جائے۔ پاکستان کی حکومت کو مضبوط سفارت کاری سے زیادہ 1974 ایکٹ میں چودھویں آئنی ترمیم میں دلچسپی ہے تاکہ وزارت امور کشمیر کو زیادہ مالی اور انتظامی اختیارات مل سکیں اور لوٹ مار کے موقعے میسر آئیں جو تیرویں آئنی ترمیم میں کم ہو گئے ہیں ۔ کنٹینر پر گھڑے عمران خان اور وزیراعظم عمران خان کی قول و فعل میں مکمل تضاد ہے اور اب اس میں دو رائے نہیں کہ خان صاحب ملک چلانے میں ابھی تک مکمل ناکام ہو رہے ہیں ۔ ان حالات میں کشمیری قیادت کو خواہ وہ حریت کانفرنس ہو یا آزاد کشمیر کی قیادت واضح اور دو ٹوک فیصلہ کرنا چاہیے ۔ سفارتی کاری اپنے ہاتھ میں لینے کا مطالبہ کریں ۔ کشمیر کانسل کو مکمل ختم کر کے آزاد کشمیر، گلگت بلتستان کی اسمبلیاں اور حریت کانفرنس برابر نمائندوں پر مشتمل ایک سپریم کونسل کو منتخب کریں ۔ اس کونسل کو کشمیر کی سفارت کاری کے مکمل اختیارات دئے جائیں کونسل کا چئیرمین کشمیر کا وزیر خارجہ ہو جو بحثیت عہدہ پاکستان وزارت خارجہ میں ڈپٹی وزیر خارجہ کے طور پر کشمیر امور میں مکمل اختیارات کے ساتھ دنیا بھر میں سفارت کاری کی ذمہ داری انجام دے۔ بصورت دیگر کوئی یہ سمجھتا ہے خواہ وہ حریت کانفرنس ہی کیوں نہ ہو کہ ڈھائی سو نوجوان کلاشنکوف یا معمولی اسلحہ سے 10 لاکھ سے زائد آرمی سے لڑ کر کشمیر آزاد کر کے دیں گے یہ خواب غفلت اور خیام خیالی ہے ۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔