"چند سوالات " سردار کامران " جاگتی آنکھیں " جو سچ کہوں تو بُرا لگے، جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں، تعلیم اور شعور کا گہرا رشتہ ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ہمارے ہاں جو تعلیم دی جاتی ہے وہ صرف معلومات اور علم کی حد تک ہے یا کہ اُس کا شعور کے ساتھ بھی کوئی رشتہ ہے؟ایک طرف ہمارے ہاں سکولز،کالجز اور یونیورسٹیز میں بڑی بڑی ڈگریاں بھی دی جا رہی ہیں اور دوسری جانب ہمارے ہاں مدارس کا مربوط نظام بھی موجود ہے،المیہ یہ ہے کہ بہت سارے بچے ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں، کچھ بچے ابتدائی تعلیم لیتے ہیں اور مزید جاری نہیں رکھ پاتے، اسی طرح کچھ بچے میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں اور کالجز یا یونیورسٹیز تک نہیں پہنچ پاتے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ، ایک حقیقت اور بھی ہے، جیسے کہ ہمارے سلیبسز میں سب کچھ پڑھایا جاتاہے ماسوائے عملی تربیت کے، ہمارے معیار تعلیم پر کوئی شک نہیں ہے مگر بات پھر وہیں ٹھہرتی ہے کہ کیا ہماری اتنی عملی تربیت کی جاتی ہے کہ ہم تعلیم یافتہ لوگ سماج کے اندر جاہلانہ رسومات کے خاتمے کیلئے کوئی عملی اقدام کر سکیں؟کیا ہماری تعلیم ہمیں شعور یا تنقیدی شعور دیتاہے؟ حال ہی میں کرونا وائرس کی وبا نے ہمار ے مذہبی تعلیمی اور سماجی شعور کا امتحان لیا، کیا ہم اس امتحان میں کامیاب ہو رہے ہیں؟ہم بچوں کو آئن سٹائن کی تھیوری تو پڑھا لیتے ہیں، مگر ہمیں کیا کھانا چاہیے، سماج میں کس طرح اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، خاص طور پر کسی قدرتی آفات یا بیماری میں کس طرح سے اپنے رویوں کی وجہ یا سائنسی علم کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو اور دوسروں کو محفوظ بنا سکتے ہیں، کی عملی تربیت دی جاتی ہے؟ ہم جس دور میں تعلیم حاصل کرتے تھے، سول ڈیفینس، این سی سی اور اس طرح کے بہت سار ے کورسز ہمارے سلیبسز کا حصہ ہوتے تھے، آج اُن کو کیوں نظر انداز کر دیا گیاہے؟ بات سماج سے جڑی ہوئی ہے، تمام انبیائے کرام اور جتنے ریفارمرز دنیا میں آئے انہوں نے سماج کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ مسئلہ ہمارے سماج میں ہے یقینا اس کا تعلق سیاسیات سے بھی ہے کہ حکمران طبقہ سماج کو تبدیل کرنے کی کتنی کاوشیں کر رہاہے۔ حکمران طبقہ قانون سازی کے ذریعے اور تعلیمی اصطلاحات کے ذریعے یقینا بڑی تبدیلی لا سکتاہے مگر ہمیں بھی اپنے سماجی رویوں پر کیا غور کرنے کی ضرورت نہ ہے؟یقینا ہم سماجی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ایک دوسرے سے گلے ملنا، ہاتھ ملانا ہمارے رویوں کا حصہ بن چکاہے، کیا ہمیں وبا کے دوران فوراً سے غیر سماجی ہونے میں دقت نہیں ہو رہی؟کیا بغیر دقت کے ہم غیر سماجی رویے نہیں اپنا سکتے، جو کہ موجودہ وقت کی ضرورت ہے۔ ہماری مساجد الحمداللہ نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، زکوٰۃ بھی ہم لوگ دیتے ہیں، صدقہ اور خیرات میں ہم لوگ باقی اقوام سے آگے ہیں، حج بھی صاحب استطاعت کرتے ہیں، رمضان کا اہتمام بھی ہم لوگ بڑے ذوق و شوق سے کرتے ہیں، یہ سب عبادات ہمارے ملک میں کی جاتی ہیں، مگر کیا یہ بھی حقیقت نہیں ہے کہ ذخیرہ اندوزی، چور بازاری، جھوٹ، دوسرے کا مال ہتھیانا، زمینیں ہتھیانا، منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ، جھوٹی گواہیاں، یہ بھی ہمارے رویوں کا حصہ نہ ہیں؟آخر کار یہ لوگ بھی کون سے سماج سے آتے ہیں؟یہ بھی کیا ہم لوگ ہی ہوتے ہیں جو ایک طرف مسجد میں اللہ کو راضی کرتے ہیں اور دوسری طرف اُسی کی مخلوق کو اور ملک و قوم کو تکلیف پہنچاتے ہیں؟سوال اُٹھانے اور تنقیدی شعور رکھنے والوں کو طعنہ زنی اور مختلف القابات سے کیا ہم نہیں نوازتے؟ خلیل جبران پورے مشرق پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مجھ پر منفی ہونے کی باتیں کی جاتی ہیں، کیا میں قبرستان کے آگے خوشی کا اظہارکروں یاکہ رقص، مجھے تعفن کی بو آتی ہے۔ کراچی کے اندر ڈاکٹر کو گولی ما ردی جاتی ہے، اسی طرح ہندوستان میں ڈاکٹروں پر حملے کیے جا رہے ہیں، ڈاکٹر یاسمین راشد (وزیر صحت پنجاب) صاحبہ نے پوری قوم کو جاہل قرار دیا، غلط کیا، اتنی کھل کر بات نہیں کرنی چاہیے، حبیب جالب اگر یہی بات لکھتاہے،جو سچ کہوں تو بُرا لگے، جو دلیل دوں تو ذلیل ہوں،یہ سماج جہل کی زد میں ہے،یہاں بات کرنا حرام ہے۔ کرونا وائرس نے جہاں معاشی صورتحال کو خراب کر دیا، صحت کے نظام کو متاثر کر لیا، شاید یہ اُسی کا قصور ہے کہ ہمارے رویے ایسے ہیں، ایسی باتیں حبیب جالب کو، یا ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ کو زیب نہیں دیتیں۔ اصل میں بچپن میں ہمیں بلاؤں، جنوں اور ججوؤں کی کہانیاں سن سن کر، ذہنوں میں بھی یہ ساری بلائیں اور ججوگھس چکے ہیں جو تعلیم سے بھی نہیں نکل سکتے۔ جو تعلیم بھی ہمیں دی جاتی ہے اس طرح دی جاتی ہے کہ صرف اور صرف تھیوریاں پڑھائی جاتی ہیں، گھر میں آ کر پھر وہی ہر محلے کی کہانی، کہ فلاں آدمی کو جن سے فلاں پیر نے جان چھڑائی، ہمارے ذہن کنفیوژن کا شکار ہی رہتے ہیں۔ شُف شَف والے کے ہاں بہت زیادہ رَش پڑا رہتاہے جبکہ ڈاکٹرز کی طرف ہم غصہ اور آج کل تو پستول بھی لے کر جا رہے ہیں، ڈاکٹر انجکشن لگا کر مارتے ہیں، گویا پچپن ہزار جو کرونا کا مریض صحتمند ہوا، تو ساڑھے تین ہزار شہید ہو گیا، پچپن ہزار کو انجیکشن نہیں لگا صرف ساڑھے تین ہزارکو انجیکشن لگ گیا، ڈاکٹر زبھی کیا کر رہے ہیں زیادہ کا علاج ہو رہا ہے اور کم لوگوں کو انجکشن لگا رہے ہیں، ملنے سے تو پرہیز ہے مگر جب بھی کسی سے سامنا ہوتاہے تو روایتی جملہ "موت سے ڈرتے ہیں؟" ملتے نہیں ہیں " اور پھر زور دارجپھی"، اب کیا کیا جائے؟ نہ بھی ملنا چاہیں اس جپھی سے کیسے جان چھوٹے؟ شُف شَف سے ہم اس لیے ٹھیک ہوتے ہیں کہ وہ جو ججو زہن میں بیٹھا ہے وہ ہمارے علاج کیلئے کافی ہے، ہمیں کسی دوا کی ضرور ت نہیں ہے بلکہ صرف اُس ججو کو ایک شُف درکارہے باقی وہ ججو پلیبی سو ایفیکٹ کے ذریعے ٹھیک کر لے گا۔ اب حکومتیں کیا کریں؟SOPs پر عمل ہم لوگ نہیں کرتے، لاک ڈاؤن ہونا چاہیے تھا،نہیں کیا گیا، اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمیں خود اس وبا سے بچنا ہو گا، اب حکومت کیا کرے؟ہر کسی بندے کے پیچھے ایک پولیس والا اور ایک ڈاکٹرکی ذمہ داری لگا لے؟ پولیس والا ڈنڈہ لے کر کھڑا ہو اور ڈاکٹر انجیکشن۔۔۔؟ایک دوسرے سے گلے نہ لگنے کیلئے کیا حکومت کوئی حفاظتی شیلڈ مہیا کرے، جس کے نتیجے میں کرونا خود بخود گھائل ہو جائے اور ہم محفوظ رہ سکیں؟ اصل میں ہم آسانی چاہتے ہیں، کون ان سارے معاملات کو دیکھے، کون ڈاکٹر زپہ بھروسہ کرے، گھنٹوں پیر صاحب کی لائنو ں میں کھڑے ہو کر ایک شُف ہی تو کروانی ہوتی ہے اور ہم ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ آخر میں بات صرف اتنی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو نئے ماحول کے ساتھ زندہ رہنا سیکھنا ہو گا، جب تک ویکسین دریافت نہیں ہو جاتی ہمیں اپنے سماجی رویوں کو بدلنا ہو گا، اگر ججوؤں اور بلاؤں سے ہم پیچھا چھڑا پائے تو ہم کرونا کی اس جنگ میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔اب چالان بکوں، جرمانہ کی کتابوں اور جگہ جگہ روک رکاوٹ ہی ہمارے لیے کافی نہیں ہے، ہمارے شعور سے ہمیں خود اپنے آپ کو سنبھالنا ہو گا۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔