کشمیر و عمران خان سردار ممتاز حسین خان ٹی وی آن کیا تو حکومتی ترجمان مراد سعید غصے بھرے لہجے میں اسمبلی بجٹ سیشن میں تقریر فرما رہے تھے۔ ماتھے پر شکن، ناک اوپر کی طرف کھینچی ہوئی۔ وہ اگر نارمل بھی بات کر رہے ہوں تو چہرے کی ساخت سے غصہ نظر آتا ہے۔ عمران خان صاحب کی کابینہ میں عجوبے بھی ہیں۔ شیریں مزاری چونکہ شیریں ہیں ان کی مٹھاس والی گفتگو قوم کو ذائقہ دے دیتی ہے۔ اس لئے وہ میٹھا عجوبہ ہیں اور مراد سعید کڑوا عجوبہ۔ مراد سعید اپوزیشن کی ہوٹنگ میں تقریر فرما رہے تھے کہ عمران خان نے کشمیر کو انٹرنیشنلائز کیا۔ ایک سال میں دو مرتبہ اقوام متحدہ میں کشمیر کو برننگ ایشو بنایا۔ 72سالوں میں پہلی مرتبہ کشمیر کی بازگشت دنیا میں سنائی دی وغیرہ وغیرہ۔ مراد سعید کی دھواں دھار تقریر اپوزیشن کے انٹرپ کے باعث رکتی رہی ورنہ آج کی تقریر میں کشمیر کا قضیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل کر دیتے۔ اسمبلی ہال مچھلی منڈی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بانجھ قوم کے بانجھ رہنما آج پوری دنیا کے سامنے تماشا لگائے ہوئے تھے۔خیر میں اپنے موضوع کے مطابق ہی قلم و قرطاس کا رشتہ جوڑوں گا۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی زور دار تقریر نے مقبوضہ کشمیر کو بہت ریلیف پہنچایا۔ امن و آشتی کی ہوائیں چلیں۔ کشمیریوں کو امن کی زندگی نصیب ہو گئی۔ ایک سال میں دو مرتبہ بقول مراد سعید اقوام متحدہ میں کشمیر کی گونج نے 5اگست 2019ء کو بھارت کو اتنا دلیر کیا کہ 72سال بعد دفعہ 370اور 35اے کا خاتمہ کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو دفن کر کے اقوام متحدہ اور عمران خان کو پیغام دیا کہ آپ بھارت کا بال بھی ٹیڑا نہیں کر سکتے۔ بھارت یہ کام پاکستان میں کسی بھی لولی لنگڑی حکومت کے دور میں کرنے کی جرأت نہ کر سکا۔ اس پر مستزادیہ یہ کہ اس اقدام کے ایک ماہ بعد کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اس کی ڈیمو گرافی تبدیل کی گئی۔ اب کشمیر، کشمیر نہیں ہندوستان ہے۔ یہ بھی عمران خان کی تقریر کی برکت ہے کہ ان تمام بھارت کی جانب سے اقدامات کو اقوام عالم نے اس ظلم پر خاموشی اختیار کر کے بھارت کے اقدام کی خاموش حمایت کی۔ عمران حکومت کی قابلیت اس وقت آشکارا ہوئی جب یہ انسانی حقوق کمیشن میں قرارداد بھی پیش نہ کر سکی۔ کشمیر میں غیر معمولی حالات کا عمران خان نے ادراک کب کیا۔ کشمیر میں 5اگست 2019ء کو سویرے ہر طرف کرفیو کا اعلان ہونے لگا۔ لینڈ لائن، ٹیلی فون، انٹرنیٹ سب کچھ بند کر دیا گیا۔ جماعت اسلامی پر تو پہلے ہی پابندی عائد ہو چکی تھی۔ اس کے ادارے بند کر دئیے گئے تھے۔ سینکڑوں کارکن گرفتار کر لئے گئے تھے۔ اثاثے منجمند کر دئیے گئے تھے۔ جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پر بھی پابندی لگ گئی تھی اور اس کے کارکن گرفتار کر دئیے گئے تھے۔ حریت کی ہر سطح کی قیادت کو نظر بند کر دیا گیا تھا۔ 5اگست کو کشمیر میں اٹھارہ ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا۔ حتیٰ کہ دہلی نواز لوگوں کو بھی تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ، اور محبوبہ مفتی، نظر بند کئے گئے وہی محبوبہ مفتی جو کچھ ہی مہینے قبل بی جے پی حکومت میں حلیف تھی۔ اب مکافات عمل سے گزر رہی تھیں۔ ہندوستان کو اب ان کی ضرورت نہ تھی۔ اب جبر کے ہتھکنڈے ہی ان کی کامیابی کی دلیل تھی۔ اس لئے کہ بھارت کو یقین ہو چکا تھا کہ ان کا بازو مروڑنے والا دنیا میں کوئی نہیں۔ اقوام متحدہ میں عمران خان کی جاندار تقریر کے زیر سایہ بھارتی حکومت نے کشمیر کی قومی، نسلی اور جغرفائی شناخت کی تبدیلی اور خصوصی قوانین کے خاتمے کے آٹھ ماہ بعد اپنے اصل منصوبے پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا ہے۔ جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن آرڈر 2020 کے نام سے جاری کردہ ایک حکم نامے کے ذریعے ریاستی ڈومیسائل کی نئی تشریح کی گئی۔ جس کے تحت کشمیر میں پندرہ سال تک مقیم رہنے والے اور یہاں سات سال تک تعلیم حاصل کرنے اور دسویں اور بارہویں جماعت کا امتحان دینے والے ملازمت کے حق دار ہوں گے۔ ڈومیسائل قانون کی نئی تشریح کے مطابق اب بھارتی حکومت کے کشمیر میں سات سال تک تعینات رہنے والے اعلیٰ آفیسران، آل انڈیا سروس آفیسرز،بھارتی حکومت کے کشمیر میں نیم خودمختار اداروں، کارپوریشنوں کے لوگ فوراً اس قانون کے تحت درخواست دے سکتے ہیں۔ اب آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی نئی چال بھارت نے چلی ہے۔ پاکستان کے ٹیپو سلطان نے ایک رسمی سا بیان داغ کر اپنی ذمہ داری پوری کی ہے۔بھارت کے سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بننے کا کریڈٹ بھی عمران خان کو جاتا ہے۔ کشمیری 5اگست 2019ء سے بدترین کرفیو اور لاک ڈاؤن میں ہیں۔ دنیا تین ماہ کا سمارٹ لاک ڈاؤن برداشت نہ کر سکی۔ بڑے بڑے قہاروں کی چیخیں نکل گئیں۔ ”ہم سے زیادہ طاقت ور کون ہے“ کا نعرہ لگانے والے خدا کے چھوٹے سے عذاب کے آگے بے بس نظر آتے ہیں۔ کشمیری تو گیارہ ماہ کے اس لاک ڈاؤن میں جی رہے ہیں۔ جس میں گرفتاریاں ہیں، ظلم و جبر ہے، شہادتیں ہیں، عصمتیں پامال ہیں، معیشت تباہ ہے۔ فون تک بند ہے، حکومتی امداد کے بجائے اذیتیں ہیں۔ ہر ایک کشمیری دکھی اور مجروح ہے۔ لیکن کشمیری جینا سیکھ چکے ہیں۔ ان کی جدوجہد طویل ہے، پیلٹ گنوں کا استعمال ان کی جدوجہد کے راستے میں حائل نہیں ہے۔ شہادتوں کے سفر میں نئے جذبے جنوں بنتے جا رہے ہیں۔ 12رمضان المبارک کو حزب المجاہدین کے چیف آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو اپنے ایک ساتھی عادل کے ساتھ ایک خون ریز معرکے میں شہید ہوئے۔ ریاض نائیکو برہان مظفر وانی کے قریبی ساتھی تھے۔ مظفر وانی کی شہادت کے بعد منصورالاسلام چیف آپریشنل کمانڈر بنے ان کی شہادت کے بعد ریاض نائیکو چیف آپریشنل کمانڈر بنے تھے۔ ریاض نائیکو نے جان بازوں کو منظم کرنے اور ان کی مزاحمتی صلاحیت کو موثر بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کسی ایک کمانڈر کی شہادت کے بعد سینکڑوں کمانڈر میدان عمل میں آجاتے ہیں۔ اس لئے کہ ”خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا“۔ آزادی کی سحر پیدا کرنے کے لئے ریاض نائیکو کی شہادت کے بعد جنید صحرائی نے بھی جام شہادت نوش کیا۔ جنید صحرائی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تھے وہ اشرف صحرائی رہنما حریت کے بیٹے تھے۔ اشرف صحرائی سید علی گیلانی کے دست راست ہیں۔ اتنے نامور کمانڈروں کی شہادت پر پاکستان کے ٹیپو سلطان لب نہ ہلا سکے۔ انہیں اپنے بکھیڑوں سے فرصت ہی نہیں۔ البتہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے طویل المیعاد ایجنڈا فلسطین سٹائل پر عمل درآمد ہے۔ تقسیم کشمیر کی فضاء ہموار ہو رہی ہے۔ عمران خان کو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر راضی کر دیا جائے گا۔ امریکہ اور کچھ دوسری طاقتیں ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر حقیقت میں بھارت کو کشمیر میں ہندو نوا ایجنڈے پر عملدرآمد کرواتے ہوئے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار کر رہی ہیں۔ ٹرمپ، مودی، عمران ٹرائیکا تقسیم کشمیر فارمولہ کے ساتھ ہمیشہ کے لئے قضیہ کشمیر سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ 72سال بعد پاکستان کی طرف سے یہ خدمت عمران خان کے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہو گی۔ کشمیر کو انٹرنیشنلائز عمران خان نے نہیں برہان مظفر وانی، ریاض نائیکو، منصورالاسلام، جنید صحرائی اور ان جیسے ہزاروں شہدا نے اپنے خون کے نذرانے سے کیا۔ بھارت کو چین سے پٹوانے کے لئے اللہ کی لاٹھی بھی حرکت میں ہے۔ آگے آگے دیکھتے ہیں ہوتا ہے کیا۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔