22جون تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد و آغاز سردار ممتاز حسین خان 1832ء میں مہاراجہ گلاب سنگھ والی پونچھ ضلع ہزارہ کے علاقہ میں یوسف زئی قبیلہ کے ساتھ مصروف جنگ تھا تو ریاست پونچھ میں سردار ملی خان اور سردار سبز علی خان کی قیادت میں ڈوگرہ فوج کو مجاہدین نے گاجر مولی کی طرح کاٹا۔ جب گلاب سنگھ کو اپنے بیٹے کی شکست کا علم ہوا تو ایک انگریز مصنف مائیکل سمتھ کے مطابق گلاب سنگھ برق رفتاری سے فوج کا ایک بھاری لشکر لے کر پونچھ پر نازل ہوا اور مجاہدین سے جنگ شروع کی۔ پندرہ ہزار مجاہدین نے جام شہادت نوش کیا۔ فتح پانے کے بعد گلاب سنگھ نے سردار ملی خان اور سردار سبز علی خان اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا ان کی زندہ کھالیں نکال کر ان میں بھوسہ بھر کر منگ کے مقام پر ایک درخت کے ساتھ لٹکایا۔ مگر پونچھ کے لوگوں خاص کر سدھن قبیلہ میں حریت کی چنگاری سلگتی رہی۔ جو 13جولائی 1931ء میں شعلہ جوالہ بنی۔ انگریزوں نے 1846ء میں جموں و کشمیر کو ریاست پونچھ کے حکمران گلاب سنگھ کے ہاتھوں 75لاکھ نانک شاہی کے عوض فروخت کیا۔ اس پر علامہ اقبال کی تڑپتی روح نے کہا:۔ دہقاں و کشت و جوئے، خیاباں فر وختند قوت فروختند و زچہ ارزاں فروختند گلاب سنگھ نے محکوم ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر کا ہر حربہ استعمال کیا۔ گلاب سنگھ اور اس کی اولاد کے ظلم و بربریت کے خلاف وقتاً فوقتاً حریت کی چنگاری بھڑکتی رہی جو 13جولائی 1931ء سے ہوتے ہوئے 1947ء میں داخل ہوئی۔ 1947ء کا سال ڈوگروں کی حکمرانی کا آخری سال ثابت ہوا۔ برصغیر میں بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان کے نعرے گونج رہے تھے۔ جموں و کشمیر میں بھی آزادی کی تڑپ نے کروٹ لی تو کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے گونجنے لگے۔ اپریل 1947ء میں مہاراجہ ہری سنگھ راولاکوٹ آیا۔ تیس ہزار سابق فوجیوں کو وردی میں دیکھ کر سٹپٹایا۔ واپس جا کر اس نے حکم دیا کہ مسلمانوں سے چاقو چھری تک جمع کر دیا جائے۔ مئی 1947ء میں دھمنی کے مقام پر ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں خواتین کی بے عزتی اور کچھ گرفتاریوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ سردار محمد ابراہیم خان صاحب بھی اپریل، مئی میں تحصیل سدھنوتی اور تحصیل باغ کا دورہ کر کے اور لوگوں کے اندر حریت و آزادی کی چنگاری بھڑکر واپس سرینگر چلے گئے تھے۔ ایسے میں بکھرے جوش و ولولہ کو یکجا کر نے کے لئے ریاست کے سرکردہ لوگوں کی ایک میٹنگ لازمی تھی۔ راولاکوٹ و باغ میں دفعہ 144کا نفاذ تھا۔ جلسہ اور میٹنگ انتہائی مشکل کام تھا۔ کسی گھر یا عمارت کو پیش کرنے کا مطلب آگ سے کھیلنے کے مترادف تھا۔ مسلم کانفرنس کے قائمقام صدر چوہدری حمید اللہ راولاکوٹ پہنچ چکے تھے۔ ان دگرگوں حالات میں ایک مرد مجاہد و مرد آہن آگے بڑھتا ہے اور اس اہم میٹنگ کے لئے اپنا قلعہ نما گھر پیش کر دیتا ہے۔ اس عظیم شخصیت کا نام نامی مولوی اقبال تھا۔ راولاکوٹ شہر کے نزدیک پوٹھی بالا ان کا مسکن تھا۔ مولوی اقبال کے ساتھی خان بہادر آف کھڑک ڈوگرہ فوج اور پولیس کو یوں غچہ دینے میں کامیاب ہوئے کہ میٹنگ کھڑک کسی مقام پر ہو گی۔اس عظیم شخصیت کے بارے میں سیّد حسن شاہ گردیزی کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں ”دنیا میں ان گنت لوگوں نے ذہنی سوچ، فکر و عمل اور جدوجہد کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی ہے۔ یہی لوگ ہر دور کے رہبر، رہنما و سرخیل رہے اور یہی وہ لوگ ہیں جو ہر عید کے لئے چشم بینا کی حیثیت رکھتے ہیں اور انہی لوگوں کے نقوش قدیم تاریخ کے ہر موڑ پر جگمگاتے نظر آتے ہیں“۔ مولوی اقبال خان کا شمار بھی ایسے ہی پر عزم لوگوں میں ہوتا ہے۔ سمیط سدوزئی میں سردار صابر حسین صابر لکھتے ہیں۔ ”سردار محمد ابراہیم خان سیاسی و عسکری ونگ کی تشکیل کے بعد جب واپس سرینگر گئے تو انہوں نے چوہدری حمیداللہ کو دورہ راولاکوٹ سے آگاہ کرتے ہوئے یہ مشورہ دیا کہ وہ مسلم کانفرنس کے قائمقام صدر کی حیثیت سے خود بھی راولاکوٹ جائیں تاکہ کارکنان کے حوصلے بلند ہو۔ اس کے بعد 22جون کو چوہدری صاحب بھی راولاکوٹ کے دورے پر آئے لیکن یہاں دفعہ 144کا نفاذ تھا جو اجلاس کے انعقاد میں مانع تھا۔ اس صورت حال کے پیش نظر چوہدری صاحب اور کارکنان مایوسی کے حصار میں سرپکڑ کر بیٹھ گئے۔ اس موقع پر ایک مرد حق نے اجلاس کے انعقاد کے لئے جب اپنے قلعہ نما وسیع مکان کے در کھولے تو گویا قوم کے دراقبال کھل گئے۔ قوم کے اس محسن کا نام مولوی محمد اقبال خان ہے اور ان کا وہ قلعہ نما مکان پوٹھی مکوالاں میں تھا۔ مولوی صاحب نے اجلاس کے شرکاء کے لئے نہ صرف اشیائے خوردونوش کا اہتمام بقدر ضرورت کیا بلکہ ان کی حفاظت کے لئے عسکری ونگ کو بھی چاک و چوبند ررکھا۔ مذکورہ اجلاس میں شامل ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس موقع پر چوہدری حمید اللہ نے کہا مجھے خدشہ ہے کہ سدھن 1832ء کی طرح ایک بار پھر زیر عتاب نہ آجائیں۔ جواباً سردار سلیمان خان آف ہورنہ میرہ نے کہا ”چوہدری صاحب اگر یوں ہوا تو کھالیں اب کے سدھنوں کی نہیں بلکہ ڈوگروں کی اتریں گی“۔ ”آزادی کے خواب پریشان میں“۔ سردار مختار خان ایڈووکیٹ فرماتے ہیں۔ ”دفعہ 144کے نفاذ کے باعث جلسہ عام کرنا ممکن نہ تھا اس لئے جملہ کارکنان کے مشورہ سے رات کے وقت کارکنان کا اجلاس راولاکوٹ سے باہر مولوی اقبال خان کے قلعہ نما وسیع مکان واقع پوٹھی مکوالاں میں منعقد کرنے کا فیصلہ ہوا۔ کارکنان مختلف اطراف سے تحصیل سدھنوتی اور تحصیل باغ سے اقبال خان کے مکان میں پہنچنا شروع ہوئے۔ خوردونوش کا اہتمام مولوی صاحب نے کیا ہوا تھا۔ اس تاریخی اجلاس میں پاکستان کے ساتھ ریاست کے الحاق کے سلسلہ میں تن، من، دھن کی بازی لگانے کا عہد کیا گیا۔ چوہدری حمید اللہ خان نے کلام پاک پر سب سے حلف لیا۔ نتیجتاً یہ میٹنگ ایکسپوز ہوئی مولوی اقبال خان کے اس تاریخی مکان کی اینٹ سے اینٹ بجائی گئی۔ مال و اسباب ڈوگرہ فوج نے لوٹ کر یہ مکان نذر آتش کر دیا اور مولوی اقبال خان کو گرفتار کر کے حوالہ زندان کیا گیا۔ اس مقام کو پونچھ میں اولیت اور تاریخی حیثیت حاصل ہے“۔ دین محمدؐ کا یہ غازی 14ماہ تک ہری سنگھ کی جیل میں رہا۔ یہ عزت وناموس کے رکھوالے جیالے تقدیر کے معمار ہیں اے وادی کشمیر تاریخ جموں و کشمیر میں غازی محمد امیر رقمطراز ہیں۔ ”آپ مولانا محمد اقبال خان واحد خوش قسمت شخص ہیں جن کے مکان کے اندر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اعلیٰ عہدیداروں کا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس سردار محمد شریف خان ریٹائرڈ چیف جسٹس کی صدارت میں ہوا جو اس وقت میں مسلم کانفرنس کے صدر تھے۔ اور چوہدری حمید اللہ جو آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے قائمقام صدر تھے وہ بھی اس اجلاس میں موجود تھے اور مہمان خصوصی تھے۔ اسی اجلاس میں سردار محمد عبدالقیوم نے مسلم کانفرنس میں شامل ہونے کا اعلان کیا۔ جو سیّد حسن شاہ گردیزی کی کوشش سے ہوا۔ آپ اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ ریاست جموں و کشمیر کے لیڈروں نے آپ کے گھر میں آزادی کے لئے اہم نوعیت کے فیصلے کئے۔ آپ کا اعلان تھا (یعنی مولوی اقبال کا) یا تخت یا تختہ دار پر لٹک جائیں گے۔ آپ چودرہ ماہ تک مہاراجہ ہری سنگھ کی کی جیل میں رہے۔ یہ ان عینی شاہدین کے مولوی اقبال خان کے بارے میں ان کی قربانی کا اعتراف ہے۔ 1947ء کے حوالہ سے دیگر مصنفین کے بھی مولوی اقبال خان کے بارے میں بہترین الفاظ میں خراج تحسین ہے لیکن کالم کی تنگ دامنی آڑے ہے۔ 22جون کو مولوی اقبال خان کے پوتے ریاض صابر کے گھر مولوی اقبال خان کو خراج تحسین پیش کرنے اور اس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔ مقررین بالخصوص سردار طاہر انور سابق وزیر حکومت نے فرمایاکہ 22جون ہی تحریک آزادی کشمیر کا نقطہ آغاز ہے جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اگر مہاراجہ ہری سنگھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ نہ کیا تو مہاراجہ کی حکومت کے خلاف اس اجلاس کو اعلان بغاوت کے طور پر لیا جائے گا۔ سامعین کے مزید گوش گزار کیا گیا کہ 19جولائی 1947ء سری نگر میں الحاق پاکستان کی قرارداد کی منظوری ہو یا 15اگست 1947ء راولاکوٹ میں اعلان بغاوت ہو یا 23اگست نیلہ بٹ کی میٹنگ ہو یا 26اگست ہڈا باڑی کے مقام پر جلسہ اور ڈوگروں کی طرف سے فائرنگ ہو یا 29اگست دوتھان کے مقام پر ڈوگروں سے دست بدست لڑائی ہو یا 24اکتوبر کو انقلابی حکومت کا قیام ہو ان سب کی بنیاد 22جون مولوی اقبال خان کے مکان میں ہونے والے پہلے اجلاس کے فیصلوں کا اظہار ہے۔ 22جون کو ریاض صابر کے گھر منعقد ہونے والی اس تقریب میں شرکاء نے یہ عہد کیا کہ تحریک آزادی کشمیر کے اس عظیم ورثے کو نئی نسل تک منتقل کرنے اور مولوی اقبال خان مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہر سال 22جون کو یہ دن منایا جائے گا۔ اس عظیم مقصد کے لئے مولوی اقبال میموریل فورم تشکیل دیا گیا جو فی الحال پوٹھی مکوالاں کی مختلف جماعتوں پر مشتمل ہو گا۔ بعد میں اسے راولاکوٹ تک وسعت دی جائے گی۔ اس فورم کے سردار طاہر انور ایڈووکیٹ چیف آرگنائزر (ن لیگ)، سردار اظہر نذر(مسلم کانفرنس)، سردار ممتاز حسین خان (جماعت اسلامی)، سردار ببرک شریف (پاکستان پیپلز پارٹی) اور سردار ماجد نعیم(جموں کشمیر پیپلز پارٹی) حصہ ہیں۔ پروگرام کے آخر میں مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کی گئی اور ماکولات سے شرکاء کو نوازا گیا۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔