اسلام آباد میں کفر کی تعمیر کی بنیاد (ابن نیاز) کتنے فخر سے کفر کا ساتھ دے کر اس کو پھیلانے کی بنیاد رکھتے ہوئے فوٹو سیشن کروایا جا رہا ہے۔ اکڑ کر یوں کھڑے ہیں جیسے اللّٰہ کے دین کو روند کر اور کفر کی جڑ کو پانی دے کر کوئی بہت اعلٰی ترین کام کیا ہے۔ کاش قرآن کو بچپن میں پڑھ کر اسے طاق میں نہ رکھتے بلکہ اس کو دل سے لگا کر اس اس کا ترجمہ پڑھتے، کسی عالم سے اس کی تفسیر پڑھ کر اسے سمجھتے، اگر خود نہیں سمجھ سکتے تھے۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین صرف زبان سے کہنا کافی نہیں ہوتا۔۔ جب صرف اللّٰہ ہی کی عبادت کا نعرہ بلند کیا جائے تو پھر کفر کا ساتھ دینے کے کیا معنی۔ پھر تو اس کی پرچھائیں سے بھی بچنا چاہیے، چہ جائیکہ اس کو باقاعدہ پنپنے کا موقع دیا جائے۔ قرآن پاک میں اللہ نے سیدھا سیدھا فارمولا بتا دیا ہے۔۔"اور تمہیں اس قوم کی دشمنی جو کہ تمہیں حرمت والی مسجد سے روکتی تھی اس بات کا باعث نہ بنے کہ زیادتی کرنے لگو، اور آپس میں نیک کام اور پرہیزگاری پر مدد کرو، اور گناہ اور ظلم پر مدد نہ کرو، اور اللہ سے ڈرو، بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔" (سور? المائدہ۔ آیت2) واضح ہے کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی نہیں کرنی جو تمھیں تمھاری عبادت گاہوں سے روکتے تھے۔ یعنی اب ان کو ان کی عبادت گاہوں سے منع نہیں کرنا۔یا ان کو اور کسی قسم کی تکلیف دینا۔ لیکن یہ بھی نہ ہو کہ ان کے گناہوں میں اور ان کے کفر میں ان کے ساتھ نہیں مل جانا اور ان کو آگے بڑھنے میں ان سے تعاون کرنے لگ جانا۔ کتنی صاف بات لکھی گئی ہے کہ ان کے ساتھ ہر گز گناہ میں اور ظلم میں مدد نہیں کرنی۔ لیکن بت پرستی کو بڑھاوا دینا، ان کو مندر خود بنا کر دینا کیا ان کے شرک میں، کفر میں ان کے ساتھ تعاون کرنے کے برابر نہیں ہے؟ اور جب وہ لوگ، جو اس تعاون کے بارے میں ذمیوں کے حق کی بات کریں گے، وہ بھی اسی آیت کے زمرے میں آئیں گے۔ ذمیوں کو یعنی غیر مسلموں کو پاکستان میں کون سے حقوق نہیں دیے گئے؟ سب ان کو میسر ہیں۔ وہی نہیں میسر، جن سے ہمیں ہمارا دین منع کرتا ہے۔ حقوق کی بات ہو رہی ہے نہ کہ ان کے مذہب میں ان سے تعاون کی۔ یہاں حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ اب موجودہ حکمرانوں کے قول و فعل میں تضاد تو پہلے دن سے ہی سامنے آگیا تھا، اب ان کے اعمال پر بھی شک کرنے کو دل کرتا ہے۔ کبھی قادیانیوں کو اپنے مشیر بناتے ہیں تو کبھی انھیں اونچی نشستیں فراہم کرتے ہیں۔ گذشتہ حکمران کہتے تھے کہ قادیانی ہمارے بھائی ہیں تو موجودہ حکمرانوں نے اس بات کو سچ ثابت کرکے دکھایا کہ شریف برادران نے غلط نہیں کہا تھا۔ نہ صرف پاکستان بلکہ متحدہ عرب امارات میں بھی ہم کچھ ماہ پہلے دیکھ چکے ہیں جہاں دنیا کے سب سے بڑے مندر کی تعمیر میں نہ صرف مدد کی گئی بلکہ پھر اس کا افتتاح بھی حکومت وقت نے کیا۔ ہمیں تو چلو عربی نہیں آتی۔ شاید ہم قرآن کی آیات کی غلط تشریح کرتے ہوں گے، غلط ترجمہ پڑھتے ہوں گے لیکن کیا وہ بھی عربی سے نابلد ہیں۔ یا قرآن کی عربی ان کی عربی سے مختلف ہے جو انھیں بھی سمجھ نہیں آتی۔ بالکل نہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ بس کفار کے بے بنیاد پرپیگنڈہ کی وجہ سے کہ اگر وہ غیر مسلم ممالک سے روابط نہیں رکھیں گے تو ان کی معیشت خراب ہو جائے گی۔ وہ اگر جمہوریت کا راگ اپنے ملک میں نہیں الاپیں گے تو ان کو حکمرانی کا موقع نہیں ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ نہ سعودی عرب میں اور نہ ہی متحدہ عرب امارات میں جمہوریت کا راگ الاپا گیا ہے۔جب سے خلافت کا خاتمہ ہوا، تب سے وہاں بادشاہت کا سلسلہ رواں ہے۔ بات ہو رہی تھی اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی۔جس کی تعمیر کے لیے درخواست دینے والوں میں اسلام آباد کے ایف 6 سیکٹر کے لوگ بھی شامل تھے۔ جب کہ مندر کے لیے زمین کی تفویض سیکٹر ایچ نائن میں کی گئی ہے۔ درخواست میں لکھا گیا تھا کہ ان کے پاس دیوالی اور دیگر تہوار منانے کے لیے کوئی عبادت گاہ نہیں ہے۔ بندہ ان سے پوچھے کہ تم لوگ تو اپنے گھروں میں اپنے ہاتھوں سے اپنے بھگوان بنا کر پوجتے ہو، تو عبادت گاہ کی کیا ضرورت۔ کون سا وہ لوگ اجتماعی عبادت کرتے ہیں اپنے بھگوان کی۔ ہر کسی نے اپنا علیحدہ بھگوان بنایا ہوا ہے۔ کروڑوں بھگوان ہیں۔ آتے جاتے، بندر، ہاتھی، گھوڑا، سانپ، شیولنگ، ہر کسی کو پوجتے ہیں، تو عبادت گاہ کی ضرورت کیا ہے۔ اگر بفرض محال بہت ہی ضرورت ہے تو پھر راول ڈیم کے پاس جو مندر ہے، اس کو دوبارہ اپنے خرچے پر تعمیر کر دو۔ ویسے تو پاکستان میں فساد اور دہشت گردی کے لیے بے تحاشا پیسہ ہے لیکن اپنے ہی مندر کی تعمیر کے لیے ڈونیشن مانگتے ہیں۔ مندرکی تعمیر میں تعاون کی غرض سے حکومت نے جو قدم اٹھایا ہے اس کے رد میں قرآن کا حوالہ دے دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور مختصر سا واقعہ کا حوالہ کہ جب منافقین نے مدینہ میں ایک مسجد تعمیر کی اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی وہ ایک نماز وہاں پڑھا کر افتتاح کر دیں تو اللہ نے ہمارے آقا کو روک دیا اور اس مسجد کو مسجد ضرار کا نام دیا کہ جس کی بنیاد ہی شر پر رکھی گئی تھی۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو گرانے کا حکم دے دیا تھا۔ اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایک مسجد اگر شر کی بنیاد پر گرائی جا سکتی ہے توکوئی مندر یا کسی بھی اور مذہب کی کوئی بھی عبادت گاہ کی تعمیر حکومت وقت کس طرح کر سکتی ہے۔ ہر گز نہیں۔ حکومت وقت کا یہ فیصلہ اللہ کے احکامات اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے شدید منافی ہے۔ اللہ تو قرآن پاک میں ان لوگوں کے لیے جن کو حکوت دی جائے، فرماتے ہیں: "وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں دنیا میں حکومت دے دیں تو نماز کی پابندی کریں اور زکوٰ? دیں اور نیک کام کا حکم کریں اور برے کاموں سے روکیں، اور ہر کام کا انجام تو اللہ کے ہی ہاتھ میں ہے۔ " (سور? الحج۔ آیت۔ 41) جب کہ یہاں نماز کی پابندی کا حکم تو درکنار، الٹا کورونا کا بہانہ بنا کر مساجد میں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ بازاروں میں، شادی کی تقریبات میں تو کورونا ہر گز نہیں پھیلتا۔ بس پھیلتا ہے تو مساجد میں نمازیوں کے ذریعے، جو پانچ وقت وضو کرکے آتے ہیں، اللہ کا نام اپنی زبان سے لیتے ہیں اور اسی کا ذکر بلند کرتے ہیں۔ نیکی کے کام نہ خود کرتے ہیں نہ دوسروں کو کرنے دیتے ہیں۔ اگر کوئی اللہ کا بندے سرعام نیکی کر ہی ڈالے، جو ریاکاری سے پاک ہو تو حکومت فوجدار (اہلکار) اس کے پیچھے ہاتھ پاؤں دھو کر پڑ جاتے ہیں کہ نیکی کرنے کے لیے یہ رقم کہاں سے آئی۔ کیا وہ سیاستدان بننا چاہتا ہے؟ کیا وہ فلاں کے خلاف کام کر رہا ہے۔ ہزار ہا طریقوں سے اس کو پریشان کیا جاتا ہے۔ اس کے نیک کا م میں اس سے تعاون کرنے کی بجائے اس کو اس حد تک مجبور کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے نیک کام سے باز آجاتا ہے۔ کاش سب سے پہلے ہمارے عوام کو اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملے اور وہ درست سمت میں اپنے آپ کو چلا سکیں اور اس کے بعد ایسے حکمرانوں کا انتخاب کریں جو نیکی اور پرہیز گاری کے کاموں مدد گار ہوں اور گناہوں کے کاموں سے روک سکیں۔ **********

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔