آزاد کشمیر حکومت کے 3سال شفقت ضیاء آزادکشمیر میں راجہ فاروق حیدر کو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالے تین سال کا عرصہ مکمل ہو گیا جس میں انہوں نے جہاں کچھ نمایاں کامیابیاں حاصل کیں وہاں کچھ اعلانات محض اعلانات ہی رہے۔مسلم لیگ کی حکومت سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی جس میں چند نمایاں میگا پراجیکٹس کا آغاز ہوا جن میں 3میڈیکل کالج،جامعات نمایاں ہیں۔بالخصوص پونچھ میں میگا پراجیکٹس کا کریڈٹ پیپلزپارٹی کو جاتا ہے جس کی بڑی وجہ اس وقت کے صدر ریاست حاجی یعقوب خان کی محنت اور کوششوں کا عمل دخل ہے۔گو کہ اس وقت کہا جاتا تھا کہ انہوں نے یہ عہدہ زرداری کو پیسے دے کر حاصل کیا ہے یہ اس منصب کے اہل نہیں ہیں۔صدر جامعات کا چانسلر بھی ہوتا ہے اس لیے بڑا پڑھا لکھا آدمی ہونا چاہیے۔ماضی کی بھی مثالیں دی جاتی رہیں کہ اس منصب پر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان جیسے لوگ رہے یہ سب درست مان لینے کے با وجود حاجی یعقوب کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی اور عملی کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہوں نے عوامی مسائل کو حل کرنے کے لیے بھر پور کردار ادا کیا ہے۔پونچھ کے حصے میں اس بار بھی صدارت آئی مگر پی پی دورسے یک دم متضاد،موجود صدر ریاست بہت ہی پڑھے لکھے قابل آدمی ہیں جن کا تعارف پاکستان میں ہی نہیں بیرون ملک بھی ہے آپ کو جب اس منصب پر فائر کیا جارہا تھا اس وقت بہت سارے لوگوں کاخیال تھا کہ یہ اس منصب سے بڑے آدمی ہیں ان کے عہدہ صدارت کے بعد بالخصوص تحریک آزاد ی کشمیر اور بالعموم آزادکشمیر کے دیگر معاملات میں نمایاں تبدیلی آئے گی آزادکشمیر کی جامعات کامعیار بڑھے گا اور پاکستان سے اچھے تعلقات کے باعث میگا پراجیکٹس آئیں گے۔ایسے میں صدر ریاست سردار مسعود خان کے قریبی اور آزادکشمیر کے با اصول اور با کردار سیاستدان سردار خالد ابراہیم خان مرحوم واحد آدمی تھے جنہوں نے ان کے اس عہدے پر لیے جانے کی مخالفت کی۔ان کا کہنا تھا کہ یہ غیر سیاسی آدمی ہیں اس کا فائدہ نہیں ہو گا ان کی بات کو وقت نے درست ثابت کیا نہ ہی تحریک آزادکشمیر کو کوئی فائدہ ہو ااور نہ ہی آزادکشمیر بالخصوص پونچھ کے عوام کو کوئی فائدہ ہوسکا۔تا ہم فاروق حیدر حکومت نے آزادکشمیر میں چند اہم کام کیے جس میں این ٹی ایس کے ذریعے محکمہ تعلیم میں تعیناتیاں ایسا اقدام ہے جس سے پڑھے لکھے نوجوانوں کو امید کی کرن ملی ہے ورنہ پی پی حکومت کے دور میں میرٹ کا جنازہ نکال دیاگیا تھا۔نوجوان مایوسی کا شکار ہو گئے سفارش،رشوت کے بغیر نوکری ایک خواب بن گیاتھا۔موجود ہ حکومت کے دور میں غریب پڑھے لکھے با صلاحیت نوجوانوں کو بھی موقع ملا ہے اس میں شک نہیں کہ اس نظام میں مزید بہتری کی گنجائش ہے بالخصوص جو 10نمبر رکھے گئے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اس کے ساتھ موجود ہ حکومت کی طرف سے سرکاری تعلیمی اداروں کے ملازمین پر بچوں کو پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں پڑھانے پر پابندی کا اقدام بھی قابل تعریف ہے عمل در آمدگی کی ضرورت ہے۔اسی طرح آزادکشمیر کی موجود حکومت نے بارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے کر ایک دینی فریضہ ادا کیا جو قابل تعریف اقدام ہے اسی طرح تیرہویں ترمیم کے ذریعے کشمیر کونسل سے مالیاتی وانتظامی اختیارات کو منتخب اسمبلی اور حکومت کو واپسی،این ایف سی سے ریاستی حصہ 40فیصد سے بڑھا۔ترقیاتی بجٹ کو 11ارب سے بڑھا کر 25ارب روپے تک لے جانے پبلک سروس کمیشن میں بہتری جیسے اقدامات نمایاں ہیں۔وزیراعظم کمیونٹی انفراسٹرکچر پروگرام کے ذریعے بنیادی ضروریات کے منصوبہ جات پر بھی کام ہو ا تاہم اس کے صاف و شفاف نہ ہونے پر ماضی کی حکومت کی طرح سوالات ضرور موجود ہیں جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ آزادکشمیر میں سیاحت کے فروغ کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور دیگر اقدامات کے لیے جو کام ہو ا وہ نا کافی ہے ابھی بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت نے ہسپتالوں میں ایمرجنسی سروسز کے زریعے مریضوں کو مفت علاج کی فراہمی میں بھی اہم کردار ادار کیا ہے تاہم ہسپتالوں میں اضافہ ڈاکٹر ز اور دیگر سٹاف کی کمی جیسے مسائل پر بھی توجہ کی ضرورت ہے موجودہ حکومت کے ان تین سالوں میں فاروق حید ر کی دلیری بے باکی کی وجہ سے جہاں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہا ں بلدیاتی انتخاباب کا وعدہ پورا نہ ہو سکنا بڑی ناکامی ہے۔ 6ماہ میں انتخابات کا وعدہ تین سالوں میں بھی پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا جس کی وجہ سے احتیارات نچلی سطح تک منتقل نہ ہو سکے۔عوام کے بنیادی مسائل آج بھی موجود ہیں جس کے لیے بلدیاتی انتخابات ضروری ہیں موجودہ حکومت اگر اس میں کامیاب ہو جائے تو یہ اس کا بڑا اقدام ہو گا۔جس سے جہا ں عوام کو فائدہ ہو گا وہاں موجودہ حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو گا۔آزاد کشمیر میں بجلی کی پیداوار میں نمایاں حصہ ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل پر بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ آزاد کشمیر کے بجٹ میں دگنا اضافہ کے بعد تعمیر وترقی میں بھی نمایاں اضافہ نظر آناچاہئے۔موجودہ حکومت کے دور میں پونچھ میں تعمیر و ترقی کا پہیہ جام ہے ایسامحسوس ہوتا ہے وزیراعظم ناراض ہیں جس کی وجہ سے عوام میں غم وغصہ پایا جاتا ہے جبکہ صدر صاحب بھی لاتعلق ہیں شاید وہ تعمیر وترقی سے بڑھ کر بین الاقوامی شخصیت ہیں موجودہ حکومت کو اپنی کاکردگی کو بہتر بنانا ہو گا ورنہ مستقبل میں عوام کے پاس جاتے ہوے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔