اسلام آباد میں مندر کی تعمیر از سیّد زاہد حسین نعیمیؔ رابطہ نمبر: 03465216458 ای میل: szahidnaeemi@gmail.com پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کی بنیاد دوقومی نظریہ پر رکھی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر میں ہندومسلم دو نظریاتی قومیں آباد تھیں۔ لیکن کئی صدیاں اکٹھے رہنے کے باوجود یہ ایک قوم نہ بن سکیں۔ وجہ ظاہر تھی اور وہ یہ کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کو وحدہ و لاشریک ذات مان کر اُس کی عبادت کرتے ہیں۔ صرف عبادت ہی نہیں بلکہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے، اس ضابطہ حیات کے مطابق ہی وہ اپنی زندگیاں گزارتے ہیں۔ عبادت گاہ سے لے کر ریاست کے ایوانوں تک زندگی گزارنے کا اسلام کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے، جو اللہ و رسول ﷺ کی بتائی ہوئی تعلیمات کے مطابق گزارنا ہے۔ یہ ایک پورا فلسفہ زندگی ہے جو اللہ و رسول ﷺ کی تعلیمات کے تابع ہے، جبکہ ہندو جو ہندوستان میں غالب اکثریت ہیں، وہ بھی اپنا ایک نظریہ رکھتے ہیں، جس کے مطابق وہ زندگی گزار رہے ہیں۔ جس میں بنیادی بات عبادت کی ہے۔ وہ پوجاپاٹ سے کام لیتے ہیں، ایک خالق کے بجائے ان کی زندگی کے تمام معاملات دیوی اور دیوتا چلاتے ہیں۔ ان کے نفع و نقصان کے مالک و مختار یہی دیوی و دیوتا ہیں، جو ہندوستان میں ہزاروں تک کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اُنہوں نے اپنے ہاتھوں سے تراش کر ان کو بنایا ہے، اور پھر مندروں میں رکھ کر ان کی پوجاپاٹ کرتے ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں یہ بھی کہ کچھ عرصہ ان دیوی دیوتاؤں کی پوجاپاٹ سے جب اکتا جاتے ہیں، ان سے دل بھر جاتا ہے، تو اٹھا کر ندی نالوں میں پھینک دیتے ہیں، پھر ان کی جگہ اور نئے رکھ دیتے ہیں۔ ہندوؤں کا یہ سلسلہ ہزاروں سالوں سے جاری ہے۔ اسلام جب برصغیر میں آیا، صوفیاء کرام کی تعلیمات نے مقامی آبادی کو اپنے کردار، اخلاق اور اسلام کی عمدہ آفاقی تعلیمات سے متاثر کیا تو ہندو پنڈتوں کی ستائی ہوئی ہندو آبادی نے اسلام کے دامن میں پناہ لیتے میں ذرہ بھر دیر نہ کی۔ یوں ہندوؤں کے بعد دوسری بڑی آبادی مسلمانوں کی قرار پائی۔ لیکن ہندوؤں نے اُنہیں الگ ملک بنانے پر مجبور کیا، چنانچہ علامہ اقبال اور قائداعظم محمد علی جناح اور ان کے ساتھیوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تحریک پاکستان کے ذریعے پاکستان کا قیام عمل میں لایا۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ قرار پایا، جس میں قرآن وسنت کے قانون کو بالادست قرار دیا اور قرار پایا کہ یہاں مسلمان آزادی کے ساتھ اپنی زندگیاں گزار سکیں گے۔ لیکن یہ بھی قرار پایا کہ اقلیتی برادریاں اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے میں آزاد ہوں گے، جو آزادی اُن کو پاکستان کے آئین وقانون میں بھی حاصل ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اقتدار میں آنے والے اکثر حکمران رواداری کی انتہاء کو پہنچتے رہے، وہ کبھی عیسائیوں اور کبھی ہندوؤں اور کبھی سکھوں کی عبادت گاہوں میں جاکر اظہارِ یکجہتی کرتے رہے اور یوں وہ اسلامی تعلیمات سے روگردانی کرتے رہے۔ کبھی ہولی دیوالی، کبھی بیساکھی تہوار اور کبھی کرسمس تقریبات میں جاکر عیسائیوں، ہندوؤں اور سکھوں کے رنگ میں رنگ جانے لگے، جو یقینا خدا و رسولﷺ کی تعلیمات کے بالکل خلاف تھا۔ پاکستان میں جہاں کہیں غیر مسلم آبادیاں تھیں، وہاں ان کے لئے پہلے ہی سہولیات موجود تھیں۔ ان کے گردوارے، مندر اور کلیسے اور چرچ موجود تھے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا حق حاصل تھا اور بلا روک ٹوک وہ ایسا کر رہے تھے اور اب بھی کر رہے ہیں۔ ہندوؤں کی زیادہ آبادی سندھ اور بلوچستان میں ہے، جہاں وہ آزادی کے ساتھ اپنے طریقے کے مطابق پوجاپاٹ کر رہے ہیں۔ سکھوں کے گردوارے پنجاب میں ہیں، وہ بھی اپنی مذہبی رسومات آزادی کے ساتھ کر رہے ہیں۔ عیسائی آبادی کراچی اور پاکستان کے چند چیدہ چیدہ شہروں میں آباد ہے۔ وہاں ان کو بھی پوری پوری سہولیات موجود ہیں، لیکن اسلام آباد پاکستان کا بالکل نیا شہر ہے، اس شہر کی بنیاد پاکستان کے سابق صدر جنرل ایوب خان نے رکھی تھی، اور پاکستان کے نظریہ کے مطابق اس کا نام رکھا گیا تھا۔ اسلام آباد میں تاریخی لحاظ سے سکھ یا ہندو آبادی یا ان کے پہلے سے تعمیر شدہ مندر یا گرددواروں کے کوئی آثار نہیں ملتے، ہاں البتہ اس شہر میں پرانی مساجد اور صوفیاء کے مزرات ملتے ہیں۔ یہ علاقہ صرف گزرگاہ تھی، جہاں امام بری سرکار نے ڈیرا ڈالا تھا، یہاں سے گزرنے والے مسافروں کو لوٹنے والے ڈاکوؤں کو راہ راست پر لاکر ان کی سیرت و کردار کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا تھا۔ یہ اس علاقہ کی مختصر تاریخ ہے۔ جنرل ایوب خان نے کراچی سے دارالحکومت یہاں منتقل کیا تو اس کا نام اسلام آباد رکھا گیا، جس کے معنی ”یہاں اسلام کا آباد ہونا ہے“۔ یہ ایک جدید شہر ہے، جس کی آبادکاری کے بعد کئی دیہات ویران ہوئے اور کہیں مساجد ویران ہوئیں۔ 1947ء کے بعد پہلی بار بینظیر دورِحکومت میں یہاں پہلا عیسائیوں کے لئے گرجا گھر بنایا گیا، حالانکہ اس کے جواز کی کوئی صورت نہیں تھی۔ اب اسلام آباد H9-2 میں ہندوؤں کے لئے مند رتعمیر کرنے کی عمران حکومت نے بنیاد رکھ دی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے ہندوؤں اور سکھوں کے اجتماع میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے پاکستان میں چار سو مندروں کی شناخت کر لی ہے، جہاں مندر تعمیر ہوں گے۔ اب جب عمران خان کے اسلام آباد میں مندر تعمیر کرنے پر تنقید ہوئی تو حکومتی اہلکار کہنے لگے کہ اس کی نبیاد 2017ء میں نوازشریف نے رکھی تھی۔ یہ مقام افسوس ہے کہ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان میں بننے والی حکومتیں اسلامی نظریہ حیات کو پس پشت ڈال کر ملک کو سیکولر بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اسلام آباد اور اس کے ملحقہ موضعات میں اسلام آباد کی آبادکاری کے موقع پر مسجدیں ویران ہو گئی تھیں، جن کے نشان اب موجود ہیں۔ ضرورت تو یہ تھی کہ ان مساجد کو پھر سے تعمیر کرکے آباد کیا جاتا، لیکن اس کے برعکس اسلام آباد میں پہلے عیسائیوں کا گرجا گھر بنایا گیا اور اب ہندوؤں کا مندر تعمیر کیا جا رہا ہے، جبکہ اسلام آباد میں کوئی ہندو آبادکار نہیں ہے۔ صرف اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کبھی کرتارپور میں سرکاری زمینوں پر سکھوں کے لئے گردوارہ تعمیر کیا جاتا ہے تو کبھی اسلام آباد میں سرکاری زمین پر گرجا گھر اور مندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔ یہ دو قومی نظریہ اور تحریک پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آئین اور قانون بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ اقلیتوں کے حقوق کا یہ مطلب ہے کہ جہاں وہ آباد ہیں، اور ان کی عبادت گاہیں ہیں، ان کی حفاظت کی جائے۔ لیکن مسلمان آبادی میں ان کے گرجاگھر اور مندر تعمیر کرانا جہاں ان کا وجود ہی نہیں، یہ قیامِ پاکستان کے مقاصد کے خلاف ہے۔ ایسا ہی کرنا تھا تو پھر پاکستان الگ بنانے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر جمعیت علماء ہند اور ابوالکلام آزاد کے فلسفہ پر ہی عمل کرنا چاہیے تھا۔ ہندوستان میں آج بھی مسلمانوں کی عبادت گاہیں، مسجدیں جلائی جا رہی ہیں اور ساتھ مسلمانوں کو بھی جلایا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے حکمران ہندوؤں کے لئے مندر بنانے کے لئے بے تاب ہیں، خاص اسلام آباد میں مندر بناکر اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار رہے ہیں اور ایک اور فتنہ کو جنم دے رہے ہیں۔ ایک طرف مسجدوں پر پہرے ہیں اور دوسری طرف سرکاری طور پر مندر تعمیر ہو رہے ہیں۔ یہ مندر اگر تھر میں تعمیر ہوتا تو اس کی کوئی جوازیت تھی، لیکن اسلام آباد میں مندر تعمیر کرنا کسی بھی لحاظ سے قرین قیاس نہیں ہے۔ حکمرانوں کو اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہیے۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔