اعلٰی عدلیہ کا تاریخی فیصلہ اور عدالتی اصلاحات کی ضرورت عمیر پرویز خان قرنطینہ کے سبب حسب معمول تاخیر سے جاگا اور عادتاََ پہلا کام موبائل سکرین پر نظر دوڑائی۔ حیرت کی انتہاء نہ رہی جب مختلف دوستوں کی جانب سے انباکس میں مبارکباد کے پیغامات پڑھے کہ آزاد کشمیر کی عدلیہ میں تقریباََ دو سال قبل کی گئی تقرریاں کالعدم قرار دے دی گئی ہیں۔ حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی و غم کے جذبات بھی سراعیت کر گے کیونکہ جس شخصیت نے ریاست آزاد کشمیر کی عوام کے لئے اصولی موقف اپنایا تھا وہ ظاہری طور پر نومبر ۸۱۰۲ میں اس دنیا سے پردہ فرما چکے۔ عدلیہ تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا جب ہائی کورٹ میں تعیناتیوں کے حکومت آزاد کشمیر کے عمل کے خلاف ممبر اسمبلی سردار خالد ابراہیم خان (مرحوم) نے دو برس قبل ۸۱۰۲ میں آزاد کشمیر اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ ہائی کورٹ کی تعیناتیوں میں صدر مسعود خان،و زیر اعظم فاروق حیدر خان اور چیف جسٹس سپریم کورٹ نے خلاف آئین اقدام کیا اور تمام قبیلوں کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں کیں جس سے انصاف کا قتل ہوا ہے اور آئین میں وضع کردہ اصولوں سے منخرف ہوتے ہوئے ایک آسامی کے خلاف ایک ہی نام تجویز کر کے ججز کی تعیناتی کی جو سراسر آئین کی خلاف ورزی ہے۔ سردار خالد ابراہیم خان نے مزید یہ نقطہ بھی اٹھایا تھا کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس آفتاب تبسم علوی نے ان سفارشات پر مختلف رائے دی اور ان کی رائے کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ تقرریاں عمل میں لائی گئیں جواخلاقی و قانونی اعتبار سے درست نہ تھا۔ اس تقریر کے دوسرے دن چیف جسٹس سپریم کورٹ ابراہیم ضیاء نے سردار خالد ابراہیم خان کو عدالت میں آ کر وضاخت کرنے کا نوٹس جاری کیا جس پر سردار خالد ابراہیم خان نے اصولی موقف اختیار کیا کہ چیف جسٹس نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اور آزاد کشمیر کے آئین کی دفعہ 34 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا ہے لہذیٰ اس غیر آئینی اقدام کو نہیں مانتا اور اس چیف جسٹس کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ۰۰۰۵۱ تنخواہ لینے والے سپاہی کو گرفتاری دے سکتا ہوں لیکن ان مراعات یافتہ ججوں کی عدالت میں پیش ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس سے جہاں ان کا اداروں پر یقین ثابت ہوتاتھا وہیں ان کا اداروں میں بیٹھے کرپٹ لوگوں سے لڑنے کا عزم بھی۔ اور ان کی اس بات کی لاج خدا بزرگ و برتر نے بھی رکھی اور ۸ نومبر ۹۱۰۲ کو اریسٹ کئے جانے یا عدلات میں پیش کئے جانے سے پہلے ہی ۴ نومبر ۹۱۰۲ ان کو اپنی عدالت میں بلا لیا۔ سردار خالد ابراہیم خان نے اسمبلی فلور پر تقریر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب یہ ججز گھر جائیں گے اور کیا پتہ اس وقت ہم ہوں گے یا نہیں۔ اور آج وہ دن آ گیا جب اس سیاست کے کربلا کے اکیلے حسین کے کہے گے الفاظ پورے ہوئے۔ ہائی کورٹ کے پانچ ججز کی تقرری کو سپریم کورٹ آزاد کشمیر کے جج راجہ سعید اکرم و دیگر نے اپنے تفصیلی فیصلے میں غیر آئنی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیاہے۔ عدلیہ کے اس فیصلے نے یہ ثابت کیا ہے کہ سابق چیف جسٹس ابراہیم ضیاء نے بد نیتی کی بنیاد پر سردار خالد ابراہیم خان کو توہین عدالت کا نوٹس دیا تھا اور وزیر اعظم فاروق حیدر اور صدر آزاد کشمیر سابق چیف جسٹس کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ سردار خالد ابرہیم خان جیسی شخصیت کا اس طرح کا سخت موقف چیف جسٹس اور حکومت دونوں کے لئے درد سر بن گیا تھا اور اس پورے عرصہ میں ریاست بھر میں ملا جلا ردعمل سامنے آتا رہا لیکن سردار خالد ابراہیم خان کے موقف کو ریاست کی تمام برادریوں سمیت وکلاء کی بڑی تعداد نے سراہا اور ان کی حمایت میں بیان بھی دیے جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ اس تمام وقت میں کچھ عقل سے عاری لوگ اسے برادری ازم کا بھی رنگ دینے کی کوشش کرتے رہے حتیٰ کہ ابراہیم ضیاء کی برادری کے ۸ وزراء کرام نے چیف جسٹس کے حق میں پریس کانفرنس کر کے براردری ازم کی بدترین مثال قائم کی لیکن خالد ابراہیم خان کی شخصیت کے ہوتے ہوئے وہ زیادہ کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ سردار خالد ابرہیم نے کبھی بھی کسی ایک مخصوص برادری و قبیلہ کے مفاد کا تخفظ نہ کیا بلکہ ہمیشہ اصول کے ساتھ کھڑے رہے جس کی بے تحاشا مثالیں موجود ہیں لیکن قارئین کے خافظہ کو تازہ کرنے کے لئے خالد ابراہیم خان کا 90 کی دہائی میں عتیق کمیشن کے خلاف اسمبلی سے احتجاجاً استعفیٰ دینا اور پھر اس کے نتیجہ میں 484 لوگوں کا ملازمتوں سے فارغ ہونا جس میں اکثریت سردار خالد ابراہیم کے اپنے قبیلہ اور پونچھ کے لوگوں کی تھی، بہترین نظیر ہے۔ اس تمام جدوجہد کو سردارخالد ابراہیم خان کی وفات کے بعد بھی جموں کشمیر پیپلز پارٹی نے جاری رکھا۔ ۸۱۰۲ جون میں ہی وکلاء خضرات جن میں شاہد بہار ایڈووکیٹ، بیرسٹر ہمایوں نواز، سردار جاوید شریف ایڈووکیٹ، عزت بیگ ایڈووکیٹ،شمشاد ایڈووکیٹ، فیاض جنجوعہ ایڈووکیٹ، بیرسٹر عدنان نواز و دیگر نے ان تقرریوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا تھا۔ تقریباََ دوسال کے بعد سپریم کورٹ آزاد کشمیر نے (چیف جسٹس ابراہیم ضیاء کے ریٹائر ہونے کے ۳ ماہ بعد) مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے پانچوں تعیناتیوں کو کالعدم قرار دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سابق چیف جسٹس انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ جن جج خضرات کی تقرری کالعدم قرار دی گئی ان میں راجہ سجاد ایڈووکیٹ،سردار اعجاز خان ایڈووکیٹ، خالد یوسف ایڈووکیٹ، چودھری منیر ایڈووکیٹ اور رضا علی خان ایڈووکیٹ شامل ہیں۔ اس کیس میں دلچسپ بات یہ بھی سامنے آئی کہ صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان کے دفتر کی جانب سے عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا گیا تھا جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ صدرآزاد کشمیر نے اس وقت کے چیف جسٹس ہائی کورٹ ایم تبسم علوی سے مشاورت کی تھی۔ اس بیان حلفی کو وکلاء نے چیلنج کیا تھا اور سپریم کورٹ نے اس بیان حلفی کو دلائل کی بنیاد پر رد کر دیا۔ قانونی و سیاسی حلقوں میں یہ بحث چل پڑی ہے اور یہ مطالبات بھی سامنے آ رہے ہیں کہ صدر ریاست کو عدالت عالیہ میں جھوٹا حلف نامہ جمع کرانے پر اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے از خود استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو پھر اسمبلی میں ان کے مواخذہ کی تحریک پیش کی جانی چاہئے۔ مزید یہ کہ سابق چیف جسٹس ابراہیم ضیاء کی بد تینی چونکہ اب ثابت ہو چکی ہے لہذیٰ سردار خالد ابراہیم خان مرحوم توہین عدالت کیس دوبارہ کھولا جائے اور اس میں عدالتی ریکارڈ میں درستگی کرتے ہوئے ابرہیم ضیا ء سے اپنے اختیارات کا نا جائز استعمال کرنے پر اعلٰی عدلیہ جواب طلب کرے اور تحریری معافی نامہ لیا جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کا حالیہ عمل یقینا عدلیہ کی تاریخ میں مثال بن چکا ہے اور اس فیصلے سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ ضرورت اس عمل کی ہے کہ جو عدلیہ بحران ان پانچ ججز کی تقرریاں کالعدم قرار ہونے کے بعد پیدا ہونے کا خدشہ ہے اس حوالے سے حکومت حکمت عملی طے کرے اور سیاسی بنیادوں سمیت ججز کی تقرریوں میں کسی بھی قسم کی کرپشن کا راستہ روکنے کے لئے قانون سازی کرے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کو فعال بنا کر اس کے ذریعہ تعیناتیاں کی جائیں یا جیسے ذیلی عدالتوں میں ججز کی تعیناتیوں کے لئے طریقہ امتحان طے ہے ویسے ہی پی ایس سی کے ذریعہ اعلیٰ عدلیہ میں تعیناتیوں کاطریقہ کار طے کرنا چاہئے تاکہ میرٹ پر تعیناتیوں کو یقینی بنایا جا سکے۔ اسی کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مراعات پر بھی نظر ثانی کی جانی چاہئے کیونکہ آزادکشمیر کا خطہ اقتصادی لحاظ سے خود کفیل نہیں ہے۔ اس لئے عا م آدمی کے ٹیکس سے بھاری مراعات سے اعلیٰ عدلیہ کالطف اندوز ہونا کوئی مناسب عمل نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی آبادی ۲۲ کروڑ ہے جس میں ٹیکس کی آمدنی آزادکشمیر سے کئی گنا زیادہ ہے۔ جب کہ آزاد کشمیر کی کل آبادی تقریباََ پینتالیس لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر میں عدلیہ کو پاکستانی اعلیٰ عدلیہ کے برابر مراعات دینا عقلمندی نہیں اور بجٹ پر غیر ضروری بوجھ ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ آزاد کشمیر میں عدالتی اصلاحات کے لئے مکالممہ کا آغاز کیا جائے۔ عدلیہ تحریک کے تمام ہمدردوں کو مبارک ہو!

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔