قارئین کرام آؤ لداخ چلیں صدا بصحرہ سردار ممتاز حسین خان چینی اور بھارتی افواج کے درمیان ہاتھا پائی کی جنگ جو وادی مگوان میں ہوئی۔ اپنی نوعیت کی منفرد جنگ اس طور ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں کے مابین اس جنگ میں کوئی آہنی اسلحہ استعمال کئے بغیرچینی فوجیوں نے بھارتی فوجیوں کے ایک کرنل سمیت بیس فوجیوں کی گردنیں مروڑ کر زندگی کا خاتمہ کیا اور درجنوں زخمی کئے۔ بھارتی وزیراعظم نیندر مودی چین سے اس قدر خوف زدہ ہوا کہ کوئی جاندار بیان دینے سے بھی قاصر رہا۔ پاکستان کے خلاف اس کی گیڈر بھبکیاں ”اندر گھس کر ماریں گے“ آئے روز میڈیا کی زینت بنتی ہیں لیکن چین کے آگے بلی بن گیا ہے۔ خیر اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ میں اس وقت لداخ کی سیر پر ہوں جو دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لداخ جموں و کشمیر کا دورافتادہ پس ماندہ خطہ ہے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ یہ خطہ ایک صدی قبل تک خاصا متمول تھا۔ لداخ متحدہ ہندوستان، تبت، چین، ترکستان، وسط ایشیاء کی ایک اہم گزرگاہ ہوا کرتا تھا۔ خوب صورت ارضیاتی خدوخال حد نگاہ تک بلند و بالا پہاڑ، کھلے میدان۔ اگست 2019ء میں بھارت نے اس خطے کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے مرکز کے زیرانتظام ایک علاقہ قرار دے ڈالا۔ دو ضلعوں پر مشتمل لہیہ اور کرگل کا رقبہ 87ہزار مربع کلومیٹر ہے، لیکن اکسائی چن علاقہ تقریباً 55ہزار کلومیٹر چین کے زیرانتظام ہے۔ اس وقت لداخ کا اصل رقبہ 32ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ 2011ء میں بھارتی حکومت کی مردم شماری کے مطابق خطہ لداخ میں مجموعی طور پر مسلمان 46فیصد اور بدھ 39فی صد، 15فی صد دیگر مذاہب۔ ایک لداخی مورخ لکھتا ہے کہ ”کشمیر کی طرح لداخ بھی 20ویں صدی میں وقوع پذیر سیاسی واقعات کی وجہ سے دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ گیا ہے۔ اس خطے کی بقاء، ترقی، اور عظمت رفتہ کی بحالی کا دارو مدار قراقرم کے بند دروں کو دوبارہ تجارت و راہدی کے لئے کھولنے میں ہی مضمر ہے“۔ قدیم شاہراہ ریشم کی ایک شاخ اس خطے سے ہو کر گزرتی ہے۔ چین کے ہاتھوں 1949ء سنکیانگ اور میر1950میں تبت پر قبضے کے بعد آہنی دیوار کھڑی کرنے سے یہ راہداریاں بند ہو گئیں مگر سب سے زیادہ نقصان 1947ء میں تقسیم ہند اور تنازعہ کشمیر کی وجہ سے اس خطے میں پیدا ہوتی کشیدگی کی وجہ سے ہوا۔ 1962ء کی بھارت چین جنگ سمیت، یہ خطہ پانچ جنگوں کے زخم کھا چکا ہے۔ بھارت کی پاکسان اور چین کے ساتھ چپقلش نے اس پورے خطے کے تاریخی رابطے منقطع کر دئیے۔ لداخی بودھ ڈوگرہ ہندوؤں سے خلش رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ 1841ء میں ڈوگرہ جنرل زور آور سنگھ نے لداخ پر فوج کشی کی ان کی عبادت گاہوں کو اصطبل بنا کر ان کی بے حرمتی کی گئی۔ لداخ میں مسلم اور بدھ آبادی میں خاصا باہمی میل جول تھا۔ مذہبی منافرت نہیں تھی لیکن 1990ء کے اوائل میں یہاں کی بدھ آبادی نے اس خطے کو کشمیر سے الگ کر کے نئی دہلی کا زیرانتظام علاقہ بنانے کے لئے احتجاج شروع کیا۔ لیکن مسلمانوں نے اس احتجاج کی مخالفت کی۔ اس طور بدھ تنظیموں نے سوشل بائیکاٹ کیا مسلمانوں کے خلاف بعد میں بودھ فرقہ کے 22افراد مشرف بہ اسلام ہوئے بدھ مسلمانوں کے خلاف مزید بھڑک اٹھے۔ اس طور اب بودھ اور مسلمانوں میں کوئی مذہبی رواداری باقی نہیں۔ لداخ اس وقت گریٹ گیم کا شکار ہے۔ لداخ کے حوالہ سے پاکستان کے بھی اکثر صحافی اور دانش ور بدھ مت کے ماننے والوں کا خطہ قرار دیتے ہیں جبکہ اس خطہ میں مسلم اکثریت میں ہیں۔ جموں و کشمیر و لداخ وہ بدقسمت خطہ ہے جو 72سالوں سے اضطراری کیفیت میں زندگی گزار رہا ہے۔ لداخ جموں و کشمیر کا حصہ ہے۔ بھارت نے اکتوبر 2019ء میں جموں و کشمیر کی ریاست کو عملی طور پر تحلیل کر دیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاستی اسمبلی سے قانون سازی کا اختیار ختم ہو اور اسے نئی دہلی حکومت کے تحت براہِ راست جموں اور کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا جائے۔ جو عملی طور پر ہو چکا۔ اتنی بڑی تبدیلی پر جموں و کشمیر اور لداخ کے فریق پاکستان کی حکومت نے ایک روائتی سا بیان دینے سے آگے کوئی عملی اقدام اٹھانے سے گریز کیا۔ اس فیصلے کے نفاذ سے قبل جموں و کشمیر، بھارت سے وابستہ واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی۔ اب جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بن چکا ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی پر سلامتی کونسل، اقوام عالم اور انصاف کے گیت گانے والے دنیا کے ٹھیکیداروں کی زبانیں گنگ ہو گئیں۔ حکومت پاکستان اپوزیشن سے جنگ میں مصروف ہے اور مافیاز کی پشت پناہی کر کے اپنی کرسی کی سلامتی کی طرف توجہ کے علاوہ اس سے کچھ نہیں ہو رہا۔ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے ہر روز نئے نئے سکینڈلز عوام کے سامنے لا کھڑے کر دئیے جاتے ہیں اور پھر الیکٹرانک میڈیا پر تماشا لگا کر جگ ہنسائی کا باعث بن رہی ہے۔ 5اگست 2019ء کو بھارتی دستور کی دفعہ 370جس نے ریاست کو خصوصی حیثیت دی تھی، اسے مختلف آئینی شقوں کے اطلاق سے خارج کر کے منسوخ کر دیا گیا۔ جبکہ دفعہ 35-Aجس نے مقامی آبادی کے لئے رہائش کے کچھ مخصوص حقوق محفوظ کر رکھے تھے اس تحفظ اور بقاء کے سارے انتظامات کو ملیا میٹ کر کے رکھ دیا۔ ان دونوں دفعات نے یہ ضمانت دی تھی کہ زمین خریدنے اور اس کے مالکانہ حقوق لینے یا سرکاری ملازمتوں کے لئے درخواست دینے کاحق صرف ان لوگوں کا ہے جو مستقل طور پر نسل در نسل یہاں پر مستقل رہائش پذیر چلے آرہے تھے۔ ان قوانین کا مطلب یہ بھی تھاکہ جموں و کشمیر سے باہر لوگوں پر کاروباری سرمایہ کاری پر پابندی لگائی جائے یا جموں و کشمیر کی اراضی اور معیشت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے بڑی اجارہ دار کمپنیوں کی کوششوں پر پابندی لگائی جائے۔ یہ سب کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں مخصوص سطح کی سیاسی اور معاشی خودمختاری کا حق دار بنانے کے لئے کیا گیا تھا۔ لیکن ریاست کو عملی طور پر بھارت میں تحلیل کر دینے کے بعد کشمیری اپنے ہی وطن میں اجنبی ہو گئے ہیں اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے یہ سارے ڈرامے رچائے گئے ہیں۔ 31مارچ 2020ء رات گئے بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر اور لداخ کے لئے باضابطہ طور پر ایک نئے ڈومیسائل کا اعلان کیا اس ڈومیسائل اعلان کے مطابق کوئی بھی فرد جو 15سال تک جموں و کشمیر اور لداخ میں کسی بھی حوالے سے مقیم رہا ہے یا اس علاقہ میں سات سال تک تعلیم حاصل کر چکا ہے یا دسویں یا بارہویں کے امتحان میں حاضر ہوا ہے اسے یہاں زمین خریدنے کا حق حاصل ہو گا اور وہ مختلف سرکاری ملازمتوں کا اہل ہو گا۔ یوں جموں و کشمیر اور لداخ کے مقامی لوگوں پر ملازمتوں کے دروازے بھی بند ہو جائیں گے۔ اس نوٹیفکیشن کے وقت بھارت نے کورونا (Covid-19)پر قابو پانے کے لئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرنے کے صرف ایک ہفتے کے اندر کیا، جس سے بھارت کے شیطانی مذموم مقاصد کا پتہ چلتا ہے۔ کشمیر میں لاک ڈاؤن کے اندر ایک اور لاک ڈاؤن بھیانک انداز میں کر کے کشمیریوں سے زندگی کی سانسیں چھیننے کی کوشش کی۔ نئے انتظام کے تحت لداخ کو قانون ساز اسمبلی کے نام پر لوٹ لیا جائے گا اور جموں و کشمیر کو محدود اختیارات ملیں گے جس سے ان علاقوں کو ریموٹ کنٹرول میونسپلیٹوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ جس سے ایک مرکزی اتھارٹی کے زیرانتظام جموں و کشمیر اور لداخ کو مزید غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے گا اب 19جولائی الحاق پاکستان کی افادیت بھی ختم ہو چکی۔ کشمیری اب پاکستان سے محبت کا اظہار پاکستانی پرچم میں لپٹ کر قبر میں اترنے کی صورت میں کریں گے۔ کشمیر کی اس کرنٹ صورت حال پر پاکستان کی مجرمانہ غفلت اور خاموشی کو تقسیم کشمیر کا ہی پیغام سمجھا جا سکتا ہے۔ ٹرمپ، مودی، عمران ٹرائیکا ضرور اس کھیل میں مصروف ہیں۔ کشمیری ایک سال سے لاک ڈاؤن بلکہ کرفیو کی زد میں ہیں لیکن دنیا کے منصفوں کی توجہ اس طرف نہیں ہے۔ اللہ نے لاک ڈاؤن کو پوری دنیا میں پھیلا کر لاک ڈاؤن کی اذیت کا احساس دلایا ہے۔ لداخیوں نے بھی اس نئے غلامی کے طوق کو مسترد کر دیا ہے۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔