مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ مکافا ت عمل شفقت ضیاء 1947میں طویل جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا جس کا مقصد اسلامی ریاست بنانا بتایا گیالیکن 72سال گزرنے کے باوجود وہ کلمے والا پاکستان نہ بن سکا جس کے دعوے ماضی کے حکمران بھی کرتے تھے، آج بھی مدینہ کی ریاست بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن عملاً کوئی اقدام نہیں اٹھایا جا رہا۔ اب ملک کے اندر تبدیلی کچھ اس طرح کی آگئی ہے کہ مذہب کا نام استعمال کرنا درست نہیں ہے اور سیاست اور مذہب الگ الگ چیزیں ہیں۔اس سے بڑی بد قسمتی کیا ہو گی جو ملک بنا ہی اسلام کے نام پر ہے اور مسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے نبی کریم ﷺ آخری رسول ہیں اور شریعت مکمل ہو چکی ہے لیکن اب دنیا کی بڑی طاقتوں کو خوش کرنے کے لیے سیکولر بننے کی کوشش ہو رہی ہے، اسلامی شعار کا مذاق بنایا جا رہا ہے،معذرت خواہانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے بلکہ منافقت کی جارہی ہے۔تقریریں کچھ ہو رہی ہیں اور عمل کچھ اور ہے۔اسلام کے ساتھ ہی نہیں جمہوریت کے ساتھ بھی پاکستان میں مذاق کیا جارہا ہے۔ 72سالوں میں 40سال آمریت رہی جبکہ 32سالوں میں بھی حکومتیں بنانے کا اختیار مکمل طور پر عوام کو نہ مل سکا انتخابات سے ایسے نتائج لینے کی کوشش کی جاتی ہے جو مقتدر حلقو ں کو پسند ہوں۔سیاستدانوں کا رویہ بھی جمہوری نہیں رہا یہی وجہ ہے کہ اکثریت کے باوجودمجیب الرحمن کو حکومت بنانے نہیں دی گئی اور نتیجتاًملک دو لخت ہو گیا پھر عوام کے مقبول ترین لیڈ ر جس کی سیاست اور نظریے سے تو اختلاف نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کی عوامی مقبولیت سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جس سے اس کی پارٹی کو ختم نہ کیا جا سکا لیکن اس کی قابلیت صلاحیت نہ ہونے کا نقصان ضرور ہوا پھر اس کی بیٹی کی مقبولیت بڑھی اور وہ ایک سنجیدہ سیاست دن کے طور پر سامنے آئی تو اسے راستے سے ہٹانے کے لیے قتل کر دیا گیا۔اگر وہ زندہ ہوتی تو شاید اس وقت حکومت نہ بنا سکتی لیکن منصوبہ بندی کے تحت اسے راستے سے ہٹا کر عوامی ہمدردی میں اضافہ کر کے زرداری جیسے شخص کو اقتدار تک پہنچا دیا گیا۔ بینظیر بھٹو کے قتل سے پاکستان اور جمہوریت کو بڑا نقصان ہو ا۔ پاکستان میں پیسے کی سیاست بڑھی اور سیاست میں سنجیدگی کی کمی ہو ئی، ایسے میں پاکستان میں واحد سنجیدہ تجربہ کار سیاست دان نواز شریف اقتدار میں آئے پھر انہیں احتساب کے نام پر راستے سے ہٹایا گیا۔ جج کی جو وڈیو سامنے آئی ہے اگر وہ سچ ثابت ہو جاتی ہے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ پاکستان میں کسی بھی ایسے لیڈر کو جو عوام میں مقبول ہے اسے غیر جمہوری طریقے سے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام سیاستدان جو عوام میں مقبول ہوئے ہیں وہ آمریت کی پیداوار رہے اور جب وہ عوام میں مقبول ہونے کے ساتھ جمہوریت میں سنجیدہ ہوئے اقتدار کے ساتھ اختیار کے خواہش مند ہوئے،ووٹ کو عزت دو کی بات کرنے لگے تو انہیں راستے سے ہٹا دیا گیاجسکا نتیجہ یہ نکلا کہ جمہوریت آج تک مستحکم نہ ہو سکی۔ نواز شریف کی حکومت کے خلاف عمران خان کی طرف سے چند حلقوں میں دھاندلی کی وجہ سے احتجاج شروع ہو اجو بعد میں اسلام آباد میں طویل ترین دھرنے کی شکل اختیا ر کیا گیا جس میں ان کے سیاسی کزن طاہر القادری بھی اپنے مدرسوں کے بچوں سمیت آئے اور دھرنے کو طولت دینے میں اہم کردار ادا کیا۔اس دھرنے میں عمران خان کی تقریریں آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ٹیکس نہ دو،بجلی فون کے بل جمع نہ کراؤ،جلا دو، بیرون ملک سے رقم ہنڈی کے ذریعے بھیجو،ملک اور حکومت کے خلاف یہ درس عمران خان 125دن سے زیادہ تک دیتے رہے۔ اس دھرنے میں طاہر القادری کے مدرسوں کے بچوں کے علاوہ سکولوں،کالجوں کے طلبہ کے ساتھ طالبات بھی تھیں، ناچ گانا بھی تھا، ڈانس بھی تھا، وہ سب کچھ تھا جو اسلامی ملک میں نہیں ہو نا چاہیے تھا۔اس دھرنے میں عمران خان رو ز کہتے رہے کہ امپائر کی انگلی کھڑی ہونے والی ہے بس حکومت گئی اس کے نتیجے میں حکومت تو نہ جا سکی ملکی معیشت کو بڑا نقصان ہوا، چائنہ کا صدر پاکستان نہ آسکا اور سب سے بڑھ کر ایک غلط جمہور ی روایت پڑگئی۔ پاکستان میں 2018کے انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت فاتح ہوئی جس کے بارے میں پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ دھاندلی ہوئی اور وزیراعظم سلیکٹڈ (Selected) ہے۔ 14ماہ کی حکومت سے ملک میں غربت بے روزگاری میں اضافہ ہو چکا ہے،ملک معاشی طور پر تباہی کے دھانے پر پہنچ چکا ہے اور ایسے میں اس حکومت کے رہنے کا جواز ختم ہو چکا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے 27اکتوبر کو اسلام آباد کی طرف آزادی مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ مولانا کا کہنا ہے کہ اس حکومت کو مزید وقت نہیں دیا جا سکتا، یہ نا جائز حکومت ہے عوام کی چیخیں نکل چکی ہیں، مہنگائی بے روزگاری نے زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں جبکہ ماضی کے دھرنے والی حکومت کہتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن مدرسے کے بچوں کو لانا چاہتے ہیں، مذہب کا استعمال کر رہے ہیں،انہیں نہیں آنے دینگے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ ماضی میں سکولوں کالجوں کے بچے اور بچیاں جب آئے تو کیسے درست تھا اور آج مولانا فضل الرحمن مدرسے کے بچوں کو لائیں گے تو کیسے غلط ہو گا؟ کیا یہ اس لیے غلط ہے کہ دینی علم حاصل کرنے والوں کو یہ حق نہیں؟ دین کو نظام زندگی کے طو ر سمجھنا جرم ہے؟ دین کی تعلیم تو روشنی ہے ان سے خوف کیوں ہے؟کیا احتجاج کے لیے سیکولر ہونا ضروری ہے؟ کیا مولانا کو بھی رنگین دھرنا دیناچاہیے؟ اگر اسیا نہیں ہے، دھرنا سیاست سے ملک اور جمہوریت کا نقصان ہوتا ہے تو پھر ماضی کے دھرنے کی غلطی تسلیم کرنی ہو گی اور اگر ماضی کا دھرنا جمہوری حق تھا تو اسے بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ اگر عوام حکومت سے مطمئن ہوئے تو وہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ نہیں آئیں گے اور اگر واقعی غربت،بے روزگاری سے تنگ ہیں اور دھاندلی سے حکومت بنی ہے تو عوام کا سیلاب آئے گا۔ حکومت کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہ عوام کا فیصلہ دیکھ لے لیکن حکومت کے بیانات اور رویے سے لگتا ہے کہ حکومت خوف زدہ ہے اس نے روکنے اور گھرو ں میں بند کرنے کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ کیا حکومت بھی اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے؟ اگر مطمئن ہے تو بوکھلاہٹ کیوں؟ پی ٹی آئی حکومت کو مان جانا چاہیے کہ ماضی میں ان سے غلطی ہوئی ہے اور یہ اسی کا مقافات عمل ہے۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔