محکمہ تعلیم میں اصلاحات فاروق حیدر حکومت کا اہم کارنامہ شفقت ضیاء تعلیم کسی ملک وقوم کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ اہمیت تعلیم کودی جاتی ہے سستی اور معیاری تعلیم حکومتوں کی اولین ترجیح میں شامل ہے ایک طویل عرصہ تک مسلمان تعلیم کی وجہ سے دنیا بھر میں امامت کرتے رہے آج بھی یورپ جیسے ممالک اس سے روشنی لینے پر مجبور ہیں اسلامی تعلیمات میں تعلیم کو بنیادی اہمیت حاصل ہے قرآن پاک کی پہلی وحی اقراء سے شروع ہوئی اور نبی مہربانؐ نے عرب کے اندھیروں کوعلم سے روشن کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے جاہل قوم دنیا کی امام بن گئی بدقسمتی سے آج تعلیم طبقات میں تقسیم ہے کئی طرح کے نصاب تعلیم ہیں ہمارے ملک میں سرکاری تعلیمی ادارے،پرائیویٹ تعلیمی ادارے اوردینی تعلیم جیسے تین حصوں میں بٹی ہوئی قوم ہے۔ 72 سالوں میں یکساں نصاب تعلیم نہ بن سکا جس کی وجہ سے ہم قوم بننے کی بجائے ہجوم بننے جا رہے ہیں۔ امیروں کے بچے پرائیویٹ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرکے اہم ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں جبکہ غریبوں کے بچوں کیلئے دروازے بند ہیں۔ کہیں کسی غریب کا بچہ اپنی قابلیت اور صلاحیت کے زور پر نکل بھی جائے تو سفارش اور رشوت اس کے راستے میں حائل ہو جاتی ہے۔ تعلیم کے میدان میں اصلاحات کی جب بھی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دی جاتی ہے۔ یہی محدود سا طبقہ ہمیشہ رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ آزادکشمیر ایک چھوٹا سا خطہ ہے جس میں تعلیم کا ریشو اگرچہ بہت اچھا ہے لیکن بدقسمتی سے اس میں سرکاری تعلیمی اداروں کو تباہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سفارش، رشوت، اقربا پروری اور میرٹ کی پامالی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں گزشتہ حکومتوں نے ایسی تباہی مچائی کہ ادارے ویران ہو گئے۔ اب ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے کہ بعض اداروں میں اساتذہ زیادہ ہیں اور بچے کم ہیں جس کی وجہ سے قومی خزانے کو بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ تعلیم پر سب سے زیادہ بجٹ خرچ ہونے کے باوجود کارکردگی صفر ہے۔ وسائل کی کمی کے باوجود عوام اپنے بچوں کی اچھی تعلیم کی خاطر پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ حکومتیں اپنے ووٹ بینک کی خاطر ایسی پالیسیاں بناتی ہیں جس سے ملازم طبقہ ناراض نہ ہو، رہے غریب عوام تو انکا کیا ہے؟ یہ ملازم طبقہ سیاست کرتے ہوئے ان سے ووٹ ڈلوانے کیلئے جو موجود ہے۔ ایسے میں آزادکشمیر میں موجودہ فاروق حیدر حکومت کے اہم اقدامات سامنے آئے جن کی تحسین کی بجائے وہی محدود طبقہ اپنے مفادات کیلئے سرگرم نظر آتا ہے۔ گزشتہ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں آزادکشمیر کو میگا پراجیکٹس دیئے گئے لیکن میرٹ کو بری طرح پامال کیا گیا۔ سفارش،رشوت کے بغیر نوکری خواب بن گیا تھا، موجودہ حکومت نے این ٹی ایس کے ذریعے میرٹ کی بحالی کی طرف اچھا قدم اٹھایا جس سے غریب پڑھے لکھے، باصلاحیت نوجوانوں کو ایک بار پھر امید ملی۔ وہ جو مایوس ہو چکے تھے وہ اپنا حق ملنے پر خوش ہوئے۔ اس سسٹم میں انٹرویو کے نام پر 10 نمبرات جو رکھے گئے ہیں وہ اگرچہ میرٹ کی مکمل بحالی میں رکاوٹ ہیں جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ سحرش سلطان جیسی بچیاں احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں لیکن اتنے بڑے اقدام پر حکومت کی تحسین کرنے کے بجاے صرف 10 نمبر پر ہی تنقید کرنا انصاف نہیں ہے تاہم حکومت سے توقع ہے کہ وہ 10 نمبرات والی گنجائش کو بھی ختم کروائے گی تاکہ میرٹ پر مکمل عملدرآمد کے راستے میں حائل یہ رکاوٹ بھی ختم ہو جائے۔موجودہ حکومت نے پی ایس سی کو بحال کیا۔ سب سے بڑھ کر سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے پابند کیا ہے کہ اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں داخل کروائیں،قابل تحسین ہے۔ سرکاری ملازمین جن کی تنخواہیں لاکھوں روپے ہیں اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں پڑھاتے ہیں یہ کسی بھی طرح انصاف نہیں، یقینا جب وہ اپنے بچوں کو انہی تعلیمی اداروں میں پڑھائیں گے تو احساس بھی ہو گا اور تعلیمی معیار بھی بہتر ہو گا۔ اگر حکومت اس نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کروا لیتی ہے تو کوئی بھی میگا پراجیکٹ نہ دینے کے باوجود اس کا یہ اقدام جہاں سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت کو یکساں بدل دے گا، وہاں عوام میں زبردست پذیرائی کا سبب بھی بنے گا۔ گو کہ ایک محدود طبقہ ان اقدامات سے پریشان ہے، اسکی تنقید کا سامنا ضرور رہے گا لیکن یہ قومی خدمت بھی ہے اور سب سے بڑا ذریعہ سرکاری تعلیمی اداروں کو دوبارہ اٹھانے کا ہے، جس پر عملدرآمد کے ساتھ ہی نتائج سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔ حکومت کو ایسے تعلیمی اداروں کو ختم کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی جن کی تعداد کم ہے کیونکہ اس اقدام سے داخلوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے ملازمین کے بچوں کے آنے کے ساتھ عام عوام اپنے بچوں کو واپس سرکاری تعلیمی اداروں میں لائیں گے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں بچوں کو تعلیم دلوانا عوام کیلئے مشکل ہو چکا ہے، انھیں امید دلانے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ادارے بہتری کی طرف جا رہے ہیں جو اس اقدام سے دلائی جا سکتی ہے۔ اس لیے قوی امیدہے کہ اس اقدام سے تعلیمی اداروں میں تعداد کا مسئلہ نہیں رہے گا تاہم اگر اس کے باوجود کچھ تعلیمی ادارے اتنی کم تعداد پر آ جاتے ہیں تو انھیں ختم کرنا ہی قومی مفاد میں ہے۔ اس لیے موجودہ حکومت کا کم تعداد کے حامل تعلیمی اداروں کو ختم کرنے کا یہ اقدام بھی قابل تحسین ہے۔ حکومت کو بیورو کریسی میں موجود علم دوستوں کی طرف سے دی گئی تجاویز پر پورے اعتماد کیساتھ عملی اقدامات اٹھانے چاہیے۔گزشتہ عرصہ میں تعلیم کے شعبہ کی بہتری کیلئے جو اقدامات سامنے آئے ہیں یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیکرٹری تعلیم اور دیگر عملہ تعلیم سے دلچسپی لے رہا ہے اور عوام دوست پالیسیاں بھی بنا رہا ہے۔اسی طرح حکومت کی طرف سے بائیومیٹرک سسٹم احسن قدم ہے تاہم سسٹم کی خرابی کی شکایات سامنے آ رہی ہیں، ناقص خرید پر احتساب بھی ہونا چاہیے۔ اطلاعات کے مطابق بھاری قیمتوں میں خریدی گئی ناقص بائیو میٹرک مشینیں اکثر خراب ہو گئی ہیں جس سے حکومتی ساکھ اور قومی خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے اس کا نوٹس لینا چاہیے اور ایسے لوگوں کا سخت احتساب ہونا چاہیے جو اس عمل میں شریک ہیں۔ حکومت آزادکشمیر کو اپنے تعلیم دوست اقدامات پر سختی سے عملدرآمد کرانا چاہیے اس کے برعکس محدود طبقے کے احتجاج کو قطعاََ اہمیت نہیں دینی چاہیے بلکہ اس نظام کو مزید بہتر بنانے کیلئے مزید دلیرانہ اقدامات جن میں مڈل اور پرائمری سکولوں میں بائیومیٹرک سسٹم کی تنصیب کرنی چاہیے تاکہ بچوں کی ابتدائی تعلیم بھی بہتر ہو سکے میٹرک پاس اساتذہ کو فارغ کرکے تعلیم یافتہ نوجوانوں کو موقع دیا جاے، اس طرح کے مزید اقدامات سے سرکاری تعلیمی اداروں میں بہتری کے ساتھ حکومت کی نیک نامی میں بھی اضافہ ہو گا تاہم محکمہ تعلیم میں موجودہ اصلاحات فاروق حیدر حکومت کا اہم کارنامہ ہے جس کی جتنی تحسین کی جائے کم ہے۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔