گزشتہ 10 برس میں10181 عام شہری شہید ہوچکے اقوام متحدہ اور دیگر آزاد اداروں کی کشمیر پر رپورٹوں میں شامل ہوشربا اعدادوشمار۔ بھارت کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ بیس ماہ کی شیرخوار بچی کو بھی پیلٹ گن کے نشانے پر رکھتا ہے؟ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس کی پلیٹ گن کے نشانے کا شکار جو بچی بن رہی ہے وہ نہ تو اس حریت پسند تحریک کا حصہ ہے جو ’’سیکولر بھارت‘‘ سے آزادی حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی ہے اور نہ ہی اس نے سیکولر بھارت کے خلاف کوئی بات اپنی زبان سے نکالی ہے۔ ایسی پمپ ایکشن بندوقوں کی تجویز بھارتی سیکیورٹی ماہرین نے دی جس کے ایک کارتوس سے ایک وقت میں چھ سو چھرے تیزرفتاری کے ساتھ باہر نکلتے ہیں۔ ایسی بندوقوں کا استعمال 2010 سے اب تک جاری ہے جس سے کئی سو افراد ہلاک اور ہزاروں بصارت سے محروم ہو چکے ہیں۔ مگر حیرت کا مقام ہے کہ ایک بیس ماہ کی بچی کے مقابلے میں بھارت کس قدر سفاکی کا مظاہرہ کر رہا ہے جو ’’سیکیولر بھارت‘‘ کے چہرے سے نقاب نوچ کے اتار چکی ہے۔ مگر بدقسمتی دیکھیے کہ عالمی برادری ایسی غیر انسانی کارروائیوں پر بھی خاموش ہے یہ تو ایک ہبا نجانے کیسے منظر عام پر آگئی خدا جانے کتنی ہبائیں اس سفاکانہ کاروائیوں کے نتیجے میں جان گنوا چکی ہو ں گی۔ انسانی حقوق کے عالمی شہرت یافتہ کارکن، جموں و کشمیر سول سوسائٹی اتحاد کے سربراہ، خرم پرویز کا کہنا ہے ” بھارتی زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر ہونے کی بجائے بدتر ہوئی ہے۔ ِ گزشتہ سات دہائیوں میں ستر ہزار کشمیری شہید ہوئے ہیں، آٹھ ہزار لاپتہ ہیں اور ہزاروں پر جنسی تشدد کیا گیا ہے۔ تشدد کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ لاقانونیت کا دور دورہ ہے اور کالے قوانین رائج ہیں۔” اقوام متحدہ کی جانب سے 14 جون 2018 کو جاری کی جانے والی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں آزادی کی تحریک برہان وانی کی شہادت کے بعد تیز ہوئی ہیں۔ ان کی شہادت کے بعد برہان کی چلائی گئی آزادی کی تحریک کی قیادت اب نوجوان کشمیریوں کے ہاتھ میں آ گئی ہے اور ان میں بڑی تعداد خواتین کی بھی شامل ہے۔ سول سوسائٹی کی سرکردہ تنظیم جموں کشمیر کولیشن اور سوسائٹی کے مطابق (جے کے سی سی ایس) کے مطابق جولائی2016 سے مارچ 2018 کے دوران 145 کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا اور سینکڑوں افراد زخمی اور بینائی سے محروم کر دیے گئے۔ بھارتی افواج کی جانب سے استعمال ہونے والا خطرناک ترین ہتھیار پیلٹ گن سرکاری آشیرباد کے ساتھ کشمیریوں پر بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ جموں و کشمیر سول سوسائٹی اتحاد اور تنظیم برائے والدین لاپتہ افراد کی مشترکہ رپورٹ میں سن 2018 میں رونما ہونے والے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے جس کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں قتل، تشدد، زنا بالجبر، غیر قانونی گرفتاریاں، غیر قانونی چھاپے،پولیس مقابلے اور جلاؤ گھیراؤ روزمرہ کا معمول ہیں۔ اس دوران آزادی کا مطالبہ کرنے والے حریت پسندوں کو کچلنے کے لئے موجود 7 لاکھ ریاستی اہلکار گویا جنونی بن گئے ہیں۔ سول سوسائٹی کی تنظیم جموں کشمیر کولیشن آف سوسائٹی کے مطابق 2018 کو اس دہائی کا مہلک ترین برس قرار دیا گیا ہے۔ اس برس میں 586 افراد قتل ہوئے، جن میں سے 160 سویلین، 267 مسلح حریت پسند جبکہ بھارت کی مسلح افواج اور پولیس کے 159 اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس برس میں 160 عام شہری شہید ہوئے ان میں 71 مسلح افواج کے ہاتھوں، 29 کنٹرول لائن پر بھارتی گولہ باری کا شکار ہوئے، 25 نامعلوم افراد کا نشانہ بنے، دس بم دھماکوں میں مارے گئے اور ایک آٹھ سالہ بچی کو جموں کشمیر پولیس کے سپیشل افسروں نے زنا بالجبر کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا۔ رپورٹ کے مطابق 2008 سے 2018 کے دوران 181 10 عام شہری شہید ہوئے۔ 115 افراد کو شری مہاراجہ ہری سنگھ ہسپتال میں پیلٹ گن کے سبب زخمی ہو جانے کی وجہ سے داخل کیا گیا۔ ان میں 74 کو پیلٹ گن کے چھرے لگے جن میں 60 کو آنکھوں میں زخم آئے۔ اسپتال کے سرجن کے مطابق سکیورٹی فورسز کے اہلکار مظاہرین کے سینوں،گردن، آنکھوں، سروں پر فائرنگ کرتے ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا مقصد مظاہرین کو قتل یا اندھا کرنا ہے۔ 2016 سے اب تک پیلٹ گن سے 1253 افراد اندھے ہوچکے ہیں اور ان میں اکثر ایسے تھے جن کی دونوں آنکھیں ہی ضائع ہوئیں اور ان میں زیادہ تر تعداد بچوں اور نوجوانوں کی ہے۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے قوانین کے تحت 2018 میں مسلح اداروں کی جانب سے ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کے 191 واقعات ریکارڈ ہوئے۔ گھروں کو جلانے اور توڑ پھوڑ کے 20 واقعات ہوئے جن میں 31 گھروں کو مکمل طور پر نظر آتش کر دیا گیا۔ 94 کو معمولی نقصان پہنچا۔ رپورٹ کے مطابق سینکڑوں سیاسی کارکنوں،عام شہریوں کو نظربند یا گرفتار کیا گیا۔ شہریوں کو تفتیش کے لئے تھانوں یا فوجی کیمپوں میں بلانا اور کئی دنوں تک ہراساں کرنا معمول کی بات ہے۔ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی رپورٹ کے مطابق آٹھ ہزار افراد اب تک لاپتہ ہو چکے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کے مختلف علاقوں پونچھ،راجوڑی، بارہ مولا، باندی پورہ اور کپواڑہ سے دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں کا معاملہ بھی جوں کا توں ہے۔ کشمیر کے انسانی حقوق کمیشن نے ڈی این اے کی مدد سے ان مدفون افراد کی شناخت کا مطالبہ اٹھایا مگر اس پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ یہ وہ نوجوان تھے جن کو ان کے گھروں،بازاروں اور تعلیمی اداروں سے اٹھا لیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق سات ہزار سے زائد بے شناخت اور اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں۔ جب اقوام متحدہ نے بھارتی مسلح افواج کی جانب سے کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی پامالیوں پر شدید تنقید پر مبنی رپورٹ جاری کی تو اسی دن رائزنگ کشمیر کے لیڈر شجاعت بخاری کو قتل کر دیا گیا۔ اسی طرح کشمیر کی صورتحال پر دستاویزی فلم دکھانے کی پاداش میں الجزیرہ کو سیکورٹی کلیئرنس نہیں دی گئی۔ کشمیری حریت رہنما آسیہ اندرابی کا انٹرویو کرنے پر صحافی عاقب کو ہراساں کیا گیا۔ اس رپورٹ کے ذریعے پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا حکومت کی طرف سے خطرناک حد تک سخت نگرانی کے ساتھ ساتھ پابندی بھی عائد کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر دی گئی حکومت یا سکیورٹی فورسز کے خلاف دی گئی رائے پر گرفتاری اور ہراساں کرنا معمول کی بات ہے۔ نابالغ افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرنے اور قید کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ شیرخوار بچے سے لے کر اسی سال کے قابل احترام بزرگوں کو بھی معاف نہیں کیا جا رہا۔ 2018 میں 31 بچوں کا قتل ہوا۔ یہ کل 159 سویلین ہلاکتوں کا تقریبا بیس فیصد ہے۔ حالانکہ ریاستی اسمبلی نے 2012 میں اس قانون کے تحت اٹھارہ برس سے کم عمر افراد کی گرفتاری کی ممانعت کی۔ جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کی ان رپورٹس کی روشنی میں بآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں اس وقت کیا صورتحال ہے؟ کشمیریوں کا کتنی ڈھٹائی اور سفاکی سے استحصال کیا جا رہا ہے۔ وہیں مودی کی جارحانہ کشمیر پالیسی دراصل ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بحیثیت مجموعی خیالات کا نتیجہ بھی ہے۔ نسل کشی کے ساتھ ساتھ ایک یہودی آباد کاری کے طرز پر ہندو انتقال آبادی کے ذریعے کشمیر میں ڈیموگرافک تبدیلیاں بھی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہیں جو کشمیریوں کی بقا پر مزید کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ کشمیر کونسل کے سربراہ علی رضا سید کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کی ریاستیں دو طرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کے حل میں ناکام رہی ہیں۔ لہذا عالمی برادری کو عملی طور پر کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس روئے زمین پر کشمیر دنیا کا وہ بدنصیب خطہ ہے جس کو انسانوں سمیت 75 لاکھ نانک شاہی میں خرید کر غلام بنایا گیا تو کبھی جابرانہ فیصلے کے ذریعے اقلیت نے اکثریت پر حکمرانی کی۔ تقسیم برصغیر 1947 سے پہلے کشمیر ایک الگ اور خود مختار ریاست تھی جس پر مہاراجہ ہری سنگھ کی شخصی حکمرانی تھی۔ مہاراجہ نے کشمیر کا بھارت سے الحاق مشروط طور پر کیا تھا۔ انگریز کے برصغیر سے جانے کے بعد کشمیریوں کو ڈوگرہ سے آزادی تو ملی، مگر ریاست جموں کشمیر کا ایک بڑا حصہ بھارتی غلامی میں چلا گیا اور آج پاکستان اور بھارت کے مابین تنازعہ کشمیر کو دنیا کا قدیم ترین تنازع کہا جاتا ہے۔ آج میڈیا کے ذریعے کشمیر کے بارے ایل او سی کی خلاف ورزی، بلا اشتعال فائرنگ، جلاؤ گھیراؤ اور کرفیو جیسی پرانی خبروں کے ساتھ ساتھ پیلٹ گن سے نہتے کشمیریوں کی آنکھیں چھین کر ہمیشہ کے لئے تاریکیوں میں دھکیلنے کی نئی خبریں بھی سماعتوں پر بوجھ بن گئی ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر میں شہداء کے 700 قبرستان اہل کشمیر کی جرات واستقامت،شجاعت،عظمت اور آزادی کے جذبے کی لگن کا مظہر ہے۔ 80لاکھ آبادی والے خطے میں آٹھ لاکھ بھارتی فوجی تعینات ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر دس کشمیریوں پر ایک بندوق بدست فوجی مسلط ہے۔ اتنی کم آبادی والے خطے میں اتنی بڑی تعداد میں جدید ترین اور انتہائی مہلک ترین ہتھیاروں سے لیس فوجیوں کی تعیناتی کی دنیا میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ سوا لاکھ کشمیری مسلمان جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ 30ہزار سے زائد خواتین بیوہ ایک لاکھ سات ہزار چار سو بچے یتیم اور ایک لاکھ سے زائد گھر خاکستر ہوچکے ہیں۔ یہ ایسا بدقسمت خطہ ہے کہ جہاں پر ہر نئے سال کا سورج اور ہر نئے دن کا آغاز بھارتی مظالم کے ساتھ ہوتا ہے۔ بھارت کی ریاستی دہشت گردی پر اقوام متحدہ امریکہ یورپ سمیت دنیا بھر کے امن و انصاف کے ٹھیکیدار چپ کا روزہ رکھے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ اگر مسئلہ عیسائیوں یا غیر مسلموں کی مسلم ممالک سے آزادی کا ہو تو اسے فورا حل کر لیا جاتا ہے اور پل بھر میں مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کو مسلم ممالک سے توڑ کر علیحدہ کر دیا جاتا ہے۔ لیکن اگر مسئلہ مسلمانوں کا ہو تو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی منافقت اور دوہرا معیار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بھارتی غنڈہ گردی کو دنیا کے سامنے بھرپور موقف کے ساتھ سامنے لائے مگر یہاں حالت تو یہ ہے کہ سابقہ حکومتیں تو کھل کر اپنا موقف کسی بڑے فورم پر دینے سے بھی گریزاں رہیں اور دوسری طرف بھارت اپنی ناجائز قبضہ کو عالمی سطح پر لابنگ کرکے جائز منواتا آ رہا ہے۔اور ہم اصولی اور تسلیم شدہ استصواب رائے کا موقف دلانے کے لیے سفارتی اور ابلاغی سطح پر بھی کوئی خاص کوشش کرنے سے قاصر ہیں۔ لیکن اب پاکستان میں بننے والی نئی حکومت سے یہ امید بندھی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرے گی اور کشمیری آواز کو نہ صرف عالمی برادری کے سامنے مکمل آزادی کے ساتھ پیش کرے گی بلکہ کشمیری عوام کے موقف کی صحیح ترجمانی بھی کرے گی۔

تازہ ترین
- مظفرآباد(پرل نیوز )آزادجموں وکشمیر حکومت نے کرونا وائرس کی دوسری لہر میں شدت آنے اور مثبت کیسوں کی شرح میں تشویش ناک حد تک اضافہ سے پیدا شدہ صورتحال کے بعد ہفتہ 21نومبررات بجے سے 6دسمبر رات بارہ بجے تک دو ہفتوں کے لیے لاک ڈاﺅن نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی منظوری منگل کے روز وزیرا عظم کی صدارت میں کابینہ کے اجلا س میں دی گئی ۔ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے کانفرنس روم میں آزادکشمیر کے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق ، وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان،وزیر تعلیم سکولز سید افتخار علی گیلانی ، وزیر آئی ٹی بورڈ ڈاکٹر مصطفی بشیر اور سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے کرونا وائرس کی صورتحال اور اس سے بچاﺅ کے لیے کابینہ اجلاس کے فیصلوں سے میڈیا کا آگاہ کیا۔اس موقع پر سیکرٹری اطلاعات ، سیاحت و آئی ٹی بورڈ محترمہ مدحت شہزاد، ڈائریکٹر جنرل اطلاعات راجہ اظہر اقبال بھی موجود تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر صحت عامہ ڈاکٹر نجیب نقی خان نے بتایا کہ کابینہ کے آج کے ہونے والے اجلاس میں کرونا وائرس کی دوسری لہر سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیل سے غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ شہریوں کی جانیں بچانا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ کرونا کی دوسری لہر کے باعث وبا کے مثبت کیسوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ پایا گیا ۔خاص طور پر مظفرآباد ، میرپور اور کوٹلی میں صورتحال بہت خراب ہے لہذا مزید بڑے نقصان سے بچنے کےلیے بروز ہفتہ 21نومبر رات 12بجے سے 6دسمبر رات بار ہ بجے تک آزادکشمیر بھر میں لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔لاک ڈاﺅن کے دوران ہر طرح کے سیاسی ، مذہبی اور سماجی اجتماعات پر پابندی عائد رہے گی۔ تمام سرکاری، نیم سرکاری اداروں کا 50%عملہ دفاتر میں خدمات سرانجام دے گا۔ ،دفاتر میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی رہے گی، تمام سرکاری پرائیویٹ تعلیمی ادارے بشمول دینی مدارس بند رہیں گے۔ کریانہ ، میڈیکل سٹور ز، بیکرز ، سبزی فروٹ ،دودھ کی دکانیں ،تندور صبح 7بجے سے شام 7بجے تک کھلے رہیں گے۔ سیاحوں کی آمد و رفت پر پابندی ،باربر شاپس و بیوٹی پارلرز بند رہیں گے۔ نماز جنازہ کی 50افراد کے ساتھ ایس او پی کے تحت کھلے میدان میں ادا کرنے کی اجاز ت ہو گی۔ پبلک ٹرانسپورٹ ایس او پی کے تحت چلے گی جس میں ماسک پہننے اور کم افراد کو گاڑیوں میں سوار ہونے کی اجازت ہوگی۔ ایس او پی کے ساتھ تعمیراتی کام کی اجازت ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پورے پاکستان میں آزادکشمیر کے اندر کرونا کے مثبت کیسوں کی شرح سب سے زیادہ ہو چکی ہے جس کی وجہ سے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا گیا ۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر وزیر چوہدری طارق فاروق نے کہا کہ کرونا وائرس کی دوسری لہر کے بعد غیر معمولی حالات پیدا ہو چکے ہیں۔ ان حالات میں سخت اقدامات اٹھا نا ضروری ہے تاکہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو مزید خطرے میں نہ ڈالا جا سکے۔ موجودہ حالات میں ایکٹو کیسز کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حکومت کا پہلا کام لوگوں کی جانیں بچانا ہے۔ اس لیے بعض اوقات غیر مقبول فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ آج کابینہ میں لاک ڈاﺅن کے متعلق تفصیلی بحث ہوئی۔ سرد موسم کی وجہ سے کرونا وائرس مزید خطرناک ہو گیا ہے اور اب 50سال سے کم عمر لوگ بھی اسی طرح متاثر ہو رہے ہیں، حکومت اپنی رٹ کو بروئے کار لائے گی۔ تاہم ساتھ ہی سب نے مل کر آگاہی مہم بھی چلانی ہے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ بتانا ہے کہ یہ دوسری لہر کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب لاپرواہی نہیں چلے گی ،ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اس لیے سب سے تعاون کی اپیل ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن سے وبا میں کمی نہ آئی تو لاک ڈاﺅن مزید سخت کریں گے۔.ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ایل او وسی پر ہندوستان کی گولہ باری کا بڑا واقعہ ہوا ہے ۔ دشمن کو منہ توڑ جواب دینے پر ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے۔ حکومت نقصانات پر ہر ممکنہ امداد کر رہی ہے بلکہ امداد میں اضافہ بھی کیا ہے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کی پابندیاں عارضی ہیں ۔لوگوں کو بچانا پہلی ترجیح ہے۔ وزیر تعلیم سکولز نے کہا کہ تاجروں کے اعلان شدہ انتخابات شیڈول کے تحت مگر ایس او پی کے تحت ہوں گے، تعلیمی ادارے ایس اوپی پر عمل کر رہے ہیں۔ وزیرتعلیم نے مزید کہا کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے جو اقدامات اٹھائے ان کے مثبت اثرات رہے۔ ایک سوال پر وزیر تعلیم سکولز بیرسٹر افتخار گیلانی نے کہا کہ ہمیں طلبہ کی پڑھائی اور ان کے سالانہ امتحانات کا احساس ہے مگر یہ نہیں کر سکتے کہ وبا اتنی پھیل جائے کہ 15دنوں کے بجائے تعلیمی ادارے سال کے لیے بند کرنے پڑیں۔ انہوں نے سکولز مالکان اور تاجر برادری سے کہا کہ حکومت کسی شوق کے تحت لاک ڈاﺅن نہیں کر رہی ہے لہذا تمام سٹیک ہولڈرز بشمول میڈیا اس ضمن تعاون کرے۔ وزیر بہبود آبادی و آئی ٹی ڈاکٹر مصطفی بشیر نے کہا کہ سرد موسم شروع ہو چکا ہے جو کرونا وائرس کو پھیلاﺅ میں مدد کر رہا ہے اسی لیے اس کی دوسری لہر میں شدت ہے جس سے بچنے کے لیے اس وبا کی چین کو توڑنا اشد ضروری ہے ۔ لاک ڈاﺅن کو شروع ہونے میں چند دن باقی ہیں لوگ تیاری کر لیں ۔ قبل ازیں میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے سیکرٹری صحت عامہ میجر جنرل احسن الطاف نے بتایا کہ 73500کرونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 5500مثبت ہیں جن کی شرح %7.5بنتی ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔کل ایکٹو کیسز 1326ہیں ،1285کیسز ہوم آئسولیشن میں ہیں ۔53مریض ہسپتالوں میں داخل ہیں کوئی مریض وینٹیلیٹر پر نہیں ،ٹیسٹنگ کی گنجائش میں اضافہ کر رہے ہیں ۔ کوٹلی ہسپتال میں بھی لیب چند دنوں تک کام شروع کر دے گی۔ ٹیسٹنگ کٹس اور آکسیجن بھی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ اس وباءکو کنٹرول کرنے کے لیے عوام کو زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے۔