8

کیا عمران خان کے خلاف کوئی لندن پلان موجود ہے؟

منگل کو پولیس کی جانب سے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کے بعد بی بی سی اردو کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں عمران خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی گرفتاری کی کوشش کی شکل میں وہ وعدے پورے کیے جا رہے ہیں جو موجودہ آرمی چیف کی تعیناتی کے موقع پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف سے کیے گئے۔

تاہم ان الزامات کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے متعلقہ حکام نے کہا ہے کہ یہ تمام الزامات ‘بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی’ ہیں۔

لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا عمران خان کے خلاف مقدمات میرٹ پر قائم کیے جا رہے ہیں یا پھر واقعی ایسا کوئی لندن پلان موجود ہے جس کے تحت ان پر سیاست کا میدان تنگ کیا جا رہا ہے۔

عمران خان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے بغیر موجودہ حکومت کچھ نہیں کر سکتی اور انھیں افسوس ہے کہ آج فوج اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو آمنے سامنے لایا جا رہا ہے۔

Lahore

لندن پلان کا نقشہ جو سابق سیکریٹری دفاع نے کھینچا

عمران خان کے اس مؤقف سے کسی اور کو اتفاق ہو یا نہ ہو سابق سیکریٹری دفاع اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل خالد نعیم لودھی کا تو ایمان کی حد تک اس بات پر یقین ہے۔

ان کے مطابق جو انھوں نے مستند ذرائع سے سنا ہے وہ یہ ہے کہ لندن پلان دو حصوں پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ تو یہ تھا کہ عمران خان کو حکومت سے بے دخل کرنے کے بعد نواز شریف واپس پاکستان آ جائیں گے اور عدالتوں سے انھی ریلیف مل جائے گا۔

سابق سیکریٹری دفاع کے مطابق اس پلان کا پہلا حصہ تو کامیاب نہیں ہو سکا ہے کیونکہ عدلیہ نے یہ تسلیم ہی نہیں کیا کہ نواز شریف کو کلین چٹ دے دی جائے۔

ان کے مطابق اب لندن پلان کے دوسرے حصے پر عملدرآمد کی کوششیں ہو رہی ہیں اور عمران خان کی گرفتاری اور نااہلی اس دوسرے حصے کا اہم جزو ہے۔

جنرل خالد نعیم کے مطابق ان کے لیے اب اس موضوع پر بات کرنا اتنا آسان نہیں ہے مگر وہ یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ لندن پلان ناکام ہو رہا ہے۔ اور آخر میں وہی ہو گا جو پاکستان کے عوام کی منشا ہے۔ ان کی رائے میں اس وقت خود پولیس کا دل بھی عمران خان کو گرفتار کرنے کا نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں