نئی دہلی(صباح نیوز) بھارت کی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت بحال کرنے سے متعلق 20سے زائددرخواستیں مسترد کرتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کو صدارتی حکم کے ذریعے ختم کرنے کے ہندو انتہا پسند مودی سرکار کے 5اگست 2019 کا فیصلہ درست قرار دے دیا اور حکم دیا کہ بھارتی الیکشن کمیشن 30ستمبر2024 تک مقبوضہ کشمیراسمبلی کے الیکشن کرائے ۔مودی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370کو ختم کرنے کے جارحانہ اقدام کے چار برس بعد چیف جسٹس ڈی وائے چندرا چد کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 5ستمبر کو محفوظ کیا گیا فیصلہ پیر کی صبح سنایا جس میں 5 اگست 2019کے اقدام کو درست قرار دے دیا گیا۔بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائے چندرا چد نے فیصلہ سناتے ہوئے کہابھارت کو تسلیم کرنے کے بعد جموں و کشمیر کوئی اندرونی خود مختاری نہیں رکھتا، آرٹیکل 370 کا اطلاق عارضی تھا، آئین کے آرٹیکل ایک اور 370 کے مطابق مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ۔فیصلے سے قبل مقبوضہ کشمیر میں کڑے سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے تاکہ مظاہروں کو روکا جا سکے جب کہ سوشل میڈیا صارفین پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 370 پر مرکز کو جموں کشمیر ریاست کی تائید کی ضرورت نہیں۔ 30ستمبر2024 تک مقبوضہ کشمیراسمبلی کے الیکشن کروائے جائیں۔عدالت نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا 5 اگست 2019کا مودی سرکار کافیصلہ برقراررکھتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 اے عارضی اقدام ہے، نفاذکافیصلہ قانونی تھایاآئینی،یہ بات اہم نہیں۔آرٹیکل 370جموں وکشمیرکی شمولیت کومنجمد نہیں کرتا۔بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ صدرکے پاس آرڈردینے کے اختیارات ہیں، آرٹیکل 370کشمیر کی یونین کیساتھ انضمام کیلئے تھا۔بھارتی حکومت نے یہ معاملہ 4 سال تک لٹکائے رکھا، بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اگست اورستمبر کے دوران 20 سے زائد درخواستوں کی ہنگامی بنیادوں پر سماعتوں کے بعد 5 ستمبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کے ایک جج جسٹس ایس کے کول دسمبر کے آخر میں ریٹائر ہو رہے ہیں جبکہ 15 دسمبر سے بھارتی سپریم کورٹ میں موسم سرما کی تعطیلات شروع ہو رہی ہیں اس لیے عدالت نے حتمی فیصلہ 11 دسمبر کو سنانے کا اعلان کیاتھا۔واضح رہے کہ پانچ اگست 2019 کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے ملک کے آئین کی شق 370 پارلیمان کے ذریعے ختم کردی تھی۔ اس شق کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو نیم خود مختار حیثیت اور خصوصی اختیارات حاصل تھے۔پارلیمان سے پاس ہونے والے مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔بھارت کے آئین میں شامل کی جانے والی شق 370 کے تحت مقبوضہ جموں وکشمیرکو خصوصی درجہ اور اختیارات دیے گئے۔ صدر آزاد جموں وکشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے مودی سرکار کے اقدام کو برقرار رکھنا ایک متعاصبانہ فیصلہ ہے جو مودی کی ہندو توا پالیسیوں کو دوام دینے کے متراف ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ اس فیصلے سے بھارت کے دنیا کے سب سے بڑی جمہوریت اور نام نہاد سیکولراسٹیٹ ہونے کے دعوؤں کی قلعی دنیا کے سامنے اب کھل کر آشکار ہو چکی ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف خود بھارت کے قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے کیونکہ مقبوضہ کشمیر ایک عالمی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اور کشمیری ایسے کسی فیصلے کے پابند نہیں ہیں اور کشمیری اس فیصلے کے خلاف سراپا اجتجاج ہیں اور اس کی بھر پور مزحمت کرتے ہیں۔ وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوارالحق نے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کی شدید مذمت کی ہے اور بھارتی سپریم کورٹ کو کشمیریوں کے آئینی و انسانی حقوق کا قاتل قرار دیا ہے ،اپنے خصوصی بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ سے کشمیریوں کو کوئی امید نہیں تھی،بھارتی سپریم کورٹ نے انصاف کے تقاضوں کو پامال کیا۔انہوں نے کہا کہ 370 اور 35 اے کی منسوخی بھارتی حکومت کا جابرانہ فیصلہ تھا،مجھے یقین تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھارتی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرے گی۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو بھارت کے کسی ادارے حتی کہ بھارتی سپریم کورٹ سے بھی کوئی امید نہیں تھی،تمام بھارتی ادارے کشمیریوں کے انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیری اپنی حق خودارادیت کی تحریک جاری رکھیں گے،شہداء کشمیر نے تحریک آزادی کو اپنے خون سے سینچا ہے،بھارت ہندوتوا کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔
0