مظفرآباد (خصوصی رپورٹ – ڈیلی پرل ویو):آزاد جموں و کشمیر حکومت نے مالی سال 2025-26 کے ترقیاتی بجٹ میں 17 ارب روپے مقامی ذرائع سے فراہم کرنے کا دعویٰ کیا ہے، لیکن سرکاری دستاویزات اور زمینی حقائق اس کے برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ اس مد میں مقامی ذرائع سے ایک روپیہ بھی مختص نہیں کیا گیا۔
یہ محض الفاظ کا کھیل اور بجٹ سازی میں گمراہ کن روایت کا تسلسل ہے، جو پچھلے تین مالی سالوں سے جاری ہے۔
گزشتہ تین سالوں کے دعوے اور حقائق
2023-24: حکومت نے 12 ارب روپے مقامی ذرائع سے دینے کا اعلان کیا، حقیقت میں کچھ نہ دیا گیا۔
2024-25: 13 ارب روپے مقامی وسائل سے دینے کا وعدہ، لیکن عمل صفر۔
2025-26: 17 ارب روپے کا دعویٰ، جبکہ اصل میں رقم مختص ہی نہیں کی گئی۔
سرکاری بجٹ دستاویزات کے مطابق گزشتہ مالی سال 2023-24 میں 25.8 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے مکمل طور پر وفاقی گرانٹس سے مکمل کیے گئے۔ رواں مالی سال 2024-25 کے اختتام (30 جون) تک 28 ارب روپے خرچ کیے جا رہے ہیں، جن میں آزاد کشمیر حکومت کی جانب سے مقامی ذرائع سے کوئی حقیقی حصہ شامل نہیں۔
ترقیاتی گرانٹس: وفاق کی بدولت، مقامی حکومت صرف اعلانات تک محدود
حکومت پاکستان کی جانب سے ہر سال آزاد کشمیر کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے خطیر رقم بطور بلاک گرانٹ دی جاتی ہے۔ بجٹ سازی کے عمل میں مقامی ذرائع سے دی جانے والی رقم کا اندراج ضرور کیا جاتا ہے، لیکن یہ رقم عملی طور پر مختص یا جاری نہیں کی جاتی، جو کہ شفافیت اور سچائی کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طرز عمل نہ صرف عوام کو گمراہ کرتا ہے بلکہ پالیسی سازی میں غلط مفروضوں کو جنم دیتا ہے کہ آزاد کشمیر مالیاتی خودکفالت کی طرف بڑھ رہا ہے — جو کہ حقیقت سے بعید ہے۔
کارکردگی کا فقدان اور بجٹ کے غیر مؤثر اخراجات
ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ وفاق سے موصولہ گرانٹس بھی بروقت استعمال نہیں ہو پاتیں۔ ترقیاتی بجٹ کا بڑا حصہ جون کے مہینے میں عجلت میں خرچ کیا جاتا ہے، جو منصوبہ بندی، شفافیت اور کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بجٹ خرچ کرنے کی ادارہ جاتی صلاحیت کا فقدان اور سست رفتار نظام ہے۔
غیر متناسب ریاستی ڈھانچہ: چھوٹا خطہ، بڑا نظام
آزاد کشمیر کی کل آبادی تقریباً 27 لاکھ اور رقبہ ریاست جموں و کشمیر کا صرف 6 فیصد ہے، لیکن اس چھوٹے خطے کے لیے ایک بھاری اور نمائشی سرکاری ڈھانچہ قائم ہے:
1 صدر، 1 وزیراعظم
53 رکنی اسمبلی
32 سیکریٹری
10 ڈپٹی کمشنر
3 ڈویژن، 40 محکمے
1,20,000 سے زائد سرکاری ملازمین
آزاد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ
سوالات اور عوامی مفاد
یہ سوال اب شدت سے اٹھ رہا ہے کہ جب مقامی ذرائع سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جا رہا تو اتنا مہنگا اور وسیع تر سرکاری نظام کیوں؟
کیا یہ نظام عوام کی فلاح کے لیے مؤثر ہے یا محض نمائشی اور بوجھ بن چکا ہے؟
نتیجہ: شفافیت اور دیانت کی ضرورت
آزاد کشمیر میں گزشتہ 77 برسوں سے بجٹ سازی اور ترقیاتی منصوبہ بندی میں دیانت و شفافیت کا فقدان ہے۔ “اپنے وسائل” سے ترقیاتی بجٹ کے دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔ تمام تر اخراجات پاکستان کی وفاقی حکومت برداشت کرتی ہے، اور مقامی حکومت صرف اعلانات، دعوے اور فرضی اعداد و شمار تک محدود ہے۔
تجاویز برائے اصلاحات:
ترقیاتی بجٹ میں شفاف اور حقیقی اعداد و شمار شامل کیے جائیں
مقامی حکومت وفاقی گرانٹس پر مکمل انحصار کا واضح اعتراف کرے
بجٹ اخراجات کے لیے منصوبہ وار اور بروقت حکمت عملی اپنائی جائے
غیر ضروری سرکاری ڈھانچے پر نظر ثانی کی جائے
ہر منصوبے کے لیے علیحدہ فنڈنگ اور آڈٹ کا مؤثر نظام لایا جائے