ڈیلی پرل ویو.وزیراعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا ہے کہ ادارہ جاتی اصلاحات کے ساتھ انفراسٹرکچر کو بھی بہتر بنانا ہو گا ، اگر یہ نظام ایسے ہی چلتا رہے گا تو یہ اپنے بوجھ تلے دب جائے گا ، ضرورت کی بنیاد پر اداروں میں اصلاحات کرنا پڑیں گی ، ہم سب کو سوچنا ہے کہ ہم نئی نسل میں کیا پروڈیوس کر رہے ہیں ؟ ، اس وقت دل خون کا آنسو روتا ہے جب ایم فل بچہ عام درخواست نہیں لکھ سکتا ، تعلیم میں کوالٹی لانا ہو گی ، اگر تعلیم سے کوالٹی کا لفظ مائنس کریں گے تو پھر کیا ہوگا ؟ سٹرکچرل ریفارمز کو بروئے کار لاتے ہوئے جوازیت کے ساتھ اداروں کو قائم رکھنا ہو گا تو پھر ہی اس کے بعد آپ مراعات کے حقدار ہوں گے ، ابھی تعلیمی پیکج پر کام جاری ہے ، کابینہ کا اصرار رہا ہے کہ نئے تعلیمی ادارے بنانے ہیں
لیکن میں نے کہا کہ پہلے قائم تعلیمی اداروں کو بہتر بنانا ہے ،اس سال 3 ارب روپے انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے دئیے ہیں ،6 ارب صحت کے لیے رکھا ہے , مفت بجلی میں بھی 70 فیصد بجلی بلات کی ادائیگی نہیں ہوتی ، ہیلتھ کارڈ کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ، اس جملے کا حقیقی مقصد کردار کی مضبوطی ہے ،تعلیم صحت اور شہریوں کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے ، جو مراعات آپ کو دستیاب ہیں وہ دنیا میں ہر کسی کو دستیاب نہیں ہیں ، پچھلی بار بجٹ میں 23 ارب کا خسارہ تھا ، اس بار کوئی خسارہ نہیں ہے ، آپ کی حکومت وسائل پیدا کر کے عوام پر خرچ کررہی ہے ، اگر آپ کو سب سہولیات میسر ہیں تو اپنے رویوں میں بھی اصلاح لانا ضروری ہے ، ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزادکشمیر کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن 2025 کے نومنتخب اراکین کی حلف برداری کی تقریب سے خطاب میں کیا ۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے آزادکشمیر کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن 2025 کے نومنتخب اراکین سے حلف لیا ۔ اس موقع پر وزیر ہائیر ایجوکیشن ظفراقبال ملک ، وزیر اطلاعات پیر محمد مظہر سعید شاہ ،وزیرسپورٹس ،یوتھ اینڈ کلچر عاصم شریف بٹ، سیکرٹری ہائر ایجوکیشن چوہدری محمد طیب ، ناظم اعلی ہائر ایجوکیشن خواجہ عبدالرحمان ، صدر ایکٹا پروفیسر طارق سلیم شاہ ، وائس پریزیڈنٹ ایکٹا چوہدری عبدالرحیم ، پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج راولاکوٹ پروفیسر ڈاکٹر یاسر عرفات ، پرنسپل پوسٹ گریجویٹ کالج مظفر آباد ڈاکٹر نذر ، سینئر وائس پریذیڈنٹ ایکٹا ڈاکٹر ظفر اقبال اور جنرل سیکرٹری ایکٹا چوہدری عبدالرحیم سمیت اساتذہ کرام کی بڑی تعداد موجود تھی ۔ وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق نے کہا کہ یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے ، یہ زمانہ آپ کو آگاہ رکھنے کا ہے ، اب لوگوں کی امید جاگ چکی ہے ، اب چھوٹا سا رونما ہونے والا واقعہ بھی چھپ نہیں سکتا ، جہاں خامی ہو وہاں کے لیے برملا کہا ہے کہ نشاندہی پر خامی کو درست کریں، یہ ممکن نہیں ہر جگہ وزیراعظم جا کر خود کام کروائے ، احتساب کا نظام مضبوط کیا ہے ، گزشتہ سال پن بجلی کے منصوبوں پر کام کیا ہے ، رسل و رسائل کو بہتر کیا ہے، خطیر رقم روڈ انفراسٹرکچر پر خرچ کی ہے ، یہاں میگا انڈسٹری تو نہیں ہے ، اساتذہ کرام نے نسل نو کی تربیت کرنی ہے ، آپ کے سپاسنامے کا حکوُمت 80 فیصد ایڈریس کر دے گی ، یہاں پروموشنز کا مطالبہ کیا گیا ہے جس پر کہوں گا کہ پروموشنز کے مطالبہ پر ریفامرز کی ضرورت ہے ، کفران نعمت سے گریز کرنے کی ضرورت ہے، جس معاشرے میں معلمین اور اساتذہ کا احترام اٹھ جائے وہ معاشرے سلامت نہیں رہتے ، اساتذہ پیشہ پیغمبری سے وابستہ ہے اس پیشہ میں پیشہ پیغمبری کی جھلک نظر آنی چاہیے ، ہم سب کو تلخی حالات کا ادراک کرنا ہے ، ہم نے اندھیروں سے راستے تلاش کرنے ہیں اور نسل نو کی امید کو زندہ رکھنا ہے، وزیراعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ طویل عرصہ بعد کسی تنظیم کے عہدیداران سے مل کر خوشی ہوئی ، یہ تنظیم اپنے وجود کو اپنے کردار سے ثابت کررہی ہے ، آزاد کشمیر مردم خیز خطہ ہے ، یہاں حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض سے آشنائی ضروری ہے ،انہوں نے کہا کہ سب سے خطرناک یہ ہے کہ ہم نے ماضی میں امید کا قتل عام کیا ، اصلاح کی امید ختم ہو گی تو منطقی انجام کیا ہوگا ؟ آج تک اللہ کے ولیوں کے علاؤہ کسی کو پرامید نہیں دیکھا ، ہمیں معاشرے میں امید کو زندہ رکھنا ہے ، اساتذہ کو ذمہ داری سے کام کرنا ہو گا ، میں نے گورنمنٹ کالج لاہورمیں جن اساتذہ سے پڑھا وہ اساتذہ کردار میں اس قدر بڑے لوگ تھے کہ جب وہ سامنے آتے تھے تو محبت میں ہمارے سر جھک جاتے تھے ، آج احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمیں جوانی میں دانش کا قیمتی اثاثہ منتقل کیا، یہاں مخالفت اسی کی ہوتی ہے جو “سٹیٹس کو” کو توڑنے کی کوشش کرے ، نظام کی بہتری کے لیے سرجیکل انٹروینشن کرنا ضروری تھا ، جب تک اللّٰہ تعالیٰ نے چاہا جہاں نظام میں میں نے زوال دیکھا وہاں بند باندھنے کی کوشش کی ، میرے دور حکومت میں 3 ہزار لوگوں نے این ٹی ایس پاس کیا ، آپ سب نے سنا کہ پاس ہونے والوں نے کہا کہ اگر میرٹ نہ ہوتا تو ہماری نسلوں میں سے بھی کوئی ایسا نہیں تھا جو سرکاری نوکری حاصل کر پاتا ، جب معاشرے ناانصافی کا شکار ہوجاتے ہیں تو ردعمل اندر سے ابھرتا ہے، انھوں نے کہا کہ ہمیں امید نو کو پروان چڑھانا ہے ، اسی بدولت معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے ۔
