0

مظفرآباد محکمہ برقیات، بجلی کے میٹروں پر بھی تین گنا منافع خوری، صارفین شدید متاثر

ڈیلی پرل ویو، مظفرآباد (نمائندہ خصوصی) محکمہ برقیات کی کارکردگی اور طریقہ کار پر سنگین سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ٹرانسفارمرز کی تنصیب کرتے وقت بجلی کی اصل کھپت اور صارفین کی تعداد کو مدنظر نہیں رکھا جاتا۔ چھوٹے سائز کے ٹرانسفارمر نصب کر دیے جاتے ہیں جو معمولی سا اضافی بوجھ برداشت نہیں کر پاتے اور بار بار جلنے لگتے ہیں۔متاثرہ ٹرانسفارمر جب ورکشاپ میں لے جائے جاتے ہیں تو وہاں بھی شفافیت کے بجائے مبینہ کرپشن کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ورکشاپ میں ٹرانسفارمرز کا آئل نکال کر الگ رکھ دیا جاتا ہے جبکہ مرمت کے دوران ناقص اور غیر معیاری تار استعمال کی جاتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ایک ٹرانسفارمر میں کم از کم 17 کلو گرام تانبے کی تار درکار ہوتی ہے مگر اکثر 15 کلو یا اس سے بھی کم ڈالا جاتا ہے، جس سے کارکردگی مزید خراب ہو جاتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ورکشاپ میں جانے والے زیادہ تر ٹرانسفارمرز کے بارے میں فائلوں میں نیا ظاہر کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں صرف پرانے اور ناقص مرمت شدہ ٹرانسفارمر دوبارہ نصب کیے جاتے ہیں۔ چند روز بعد وہی ٹرانسفارمر دوبارہ جلنے سے عوام کو اندھیروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ادھر بجلی کے میٹروں کی فراہمی میں بھی صارفین کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا انکشاف ہوا ہے۔ کمپنی سے خریدے گئے بجلی کے میٹر فی کس تقریباً 1400 روپے میں ملتے ہیں لیکن محکمہ برقیات یہی میٹر صارفین کو تین گنا زیادہ قیمت پر فراہم کرتا ہے۔عوامی حلقوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ محکمہ برقیات میں جاری مبینہ کرپشن، ناقص مٹیریل کے استعمال اور منافع خوری کے خلاف شفاف تحقیقات کی جائیں اور ذمہ داروں کو سخت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے تاکہ صارفین کو حقیقی معنوں میں ریلیف مل سکے.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں