0

مظفرآباد ٹیوشن سینٹرز اور پرائیویٹ ادارے دیمک بن گئے

ڈیلی پرل ویو.مظفرآباد(نامہ نگار) روحانی والدین کے رتبے کو ٹیوشن سنٹرز اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں سے منسلک غیر تربیت یافتہ نوجوان دیمک کی طرح چاٹنے لگے۔ مذہب سے دوری یا محکمہ تعلیم کے متعلقہ ارباب اختیار کی مجرمانہ چشم پوشی۔ شہر اقتدار میں قائم چند ایک پرائیویٹ تعلیمی اداروں، ٹیوشن سینٹرز پر ویسٹرن کلچر کی بھرمار، مخلوط طرز تعلیم نے نسل نو کو تباہی کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ موبائل کا کھلے عام استعمال، نازیبا حرکات، میل جول، آئے روز گیٹ ٹو گیدر پارٹیاں اور بیرون آزاد کشمیر تعلیمی دوروں کے نام پر کھلی آزادی نے کئی ایک گھروں کی عزتوں کو خطرات سے دوچار کر دیا۔ ویسٹرن بائی پاس کا علاقہ سب پر بازی لے گیا۔ مخلوط پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سینٹرز پر والدین کی مجبوریوں کو مبینہ طور پر کیش کروایا جانے لگا۔ گھر گھر جا کر بچوں کو ٹیوشن دینے والے اساتذہ کی جانب سے شعبہ پیغمبری کو داغدار کرنے کا انکشاف۔عالمی اساتذہ کے دن پر عوام اور سول سوسائٹی نے ہزاروں سوال اٹھا دیے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق محکمہ تعلیم آزاد کشمیر سمیت دیگر ارباب اختیار کی جانب سے مجرمانہ خاموشی کے بعد گلی محلوں میں کھولے گئے ٹیوشن سینٹرز کے حوالے سے گزشتہ روز سول سوسائٹی اور والدین کی کثیر تعداد جن میں شمشاد بخاری، نصرت شیخ، کومل علی،شکیلہ بخاری، شبنم نصیر، شمیم اختر کے علاؤہ ملک علی زیب ایڈووکیٹ، راجا اعجاز خان،راجا شفیق خان،سید غلام رسول شاہ،راجا عامر،دانش مغل، چوہدری قربان،فرمان علی و دیگر نے کہا کہ ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں اور ٹیوشن سینٹرز پر مخلوط طرز تعلیم نے نسل نو کو بربادی کی طرف دھکیلنا شروع کر رکھا ہے۔ شہر بھر کے گلی کوچوں مصروف ترین کاروباری مراکز،شاہرات کناروں پر کھلے یہ ٹیوشن سینٹرز نوجوان بچوں اور بچیوں کو میل ملاپ کی کھلی آزادی کے لیے مواقعے اور جگہ فراہم کرتے ہیں۔ ان اداروں میں نہ تو کوئی پوچھنے والا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی روک ٹوک کرنے والا۔ سونے پر سہاگہ ان اداروں کے مالکان اور غیر تربیت یافتہ اساتذہ آئے روز گیٹ ٹو قدر کے نام پر مخلوط پارٹیاں منعقد کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر مختلف پیجز کے ذریعے بچوں اور بچیوں کی ان تقاریب کی تصاویر وائرل کر کے سائبر کرائم کے بھی مرتکب ہو رہے ہیں مگر انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انتہائی باوثوق ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ان ٹیوشن سینٹرز میں پڑھانے والے اساتذہ کئی ایک گھروں میں بھی جا کر بچوں کو ٹیوشن فراہم کرتے ہیں۔ جہاں وہ بچوں اور ان کے والدین کے ساتھ دیگر طلبہ طالبات کے حوالے سے نازیبا گفتگو بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے شہر کے کئی ایک معزز گھرانوں کے بچے اور بچیاں شدید ذہنی اذیت کا شکار ہو کر تعلیم کو خیر آباد کہنے پر مجبور ہو چکی ہیں۔ ویسٹرن بائی پاس پر قائم کئی ایک ٹیوشن سینٹرز پر دن رات یہ کاروبار جاری ہے۔ ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ یہ ٹیوشن سینٹرز نوجوان بچوں اور بچیوں کو آئے روز تعلیمی دوروں کے نام پر بیرون آزاد کشمیر لے کر جاتے ہیں۔ جہاں پر بچے اور بچیاں کھلے عام ایک دوسرے سے میل ملاقاتیں کرتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ایک ٹیوشن سینٹر سے نوجوان بچی بھاگ نکلی جس کا پرنٹ سوشل میڈیا پر خوب چرچا ہوا مگر کسی بھی ادارے یا متعلقہ ارباب اختیار کی جانب سے نہ تو اس ادارے اور اس ٹیوشن سینٹر کے خلاف کوئی کاروائی کی جا سکی اور نہ ہی ان سے کسی بھی قسم کی تحقیقات ہوئیں۔ عوامی حلقوں سمیت سول سوسائٹی اور والدین نے ارباب اختیار خاص کر محکمہ تعلیم کے سربراہان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہر اقتدار مظفرآباد کے گلی کوچوں محلوں مصروف ترین کاروباری مراکز میں قائم ٹیوشن سینٹرز کا قبلہ درست کرنے کے لیے کردار ادا کریں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں