(ڈیلی پرل ویو) جما عت اسلامی آزاد کشمیرگلگت بلتستان کے امیر ڈاکٹر محمد مشتا ق کان نے کہاکہ گلگت بلتستان کے بہادر اور مجاہد عوام نے جہاد کے ذریعے ڈوگرہ سامراج سے یہ خطہ آزاد کرایا،یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر پوری قوم کو آزادی مبارک، یوم آزادی گلگت بلتستان اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ کم از کم اب تو ایک میڈیکل کالج اس خطے میں قائم ہو جانا چاہیے آج کا یوم آزادی اس بات کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ گلگت اور بلتستان اور ساتھ دیامر کے تینوں ڈویژن میں الگ الگ یونیورسٹیز کا قیام عمل میں ا ٓجائے،گلگت اور بلتستان انتہائی اہم سٹریٹیجک علاقہ کشمیر کی پرنسلی سٹیٹ کا حصہ رہا ہے اور مہاراجہ نے جب آزاد کشمیر میں جاری تحریک آزادی کشمیر سے ڈرتے ہوئے کہ اب یہ اپنی آزادی کی منزل کو حاصل کر لیں گے ہندوستان سے مدد کی بھیک مانگی اور ہندوستان نے اپنے جابرانہ قبضے کا آغاز کرتے ہوئے 27 اکتوبر کو سری نگر میں اپنی افواج اتار دی،تو اسی دوران یہ میں گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھی مہاراجہ کی فوج اور فورس کے جہاد شروع کیا بطور خاص گھنسارہ سنگھ سے جو مہاراجہ کے ایک ذمہ دار کے طور پر گلگت بلتستان کے اس پورے علاقے کو دیکھ رہے تھا اس کے خلاف عزم بغاوت بلند کیا علم بغاوت بلند کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد کو بہت تیز تر کر دی تو چنانچہ تاریخ یاد رکھے گی کہ کرنل حسن مرزا اور اسی طرح میجر بابر اور دیگر جتنے تحریک آزادی کے ذمہ داران تھے انہوں نے بڑی کامیاب جدوجہد کے بعد گھنسارہ سنگھ کو گرفتار کرتے ہوئے مہاراجہ کی آخری باقیات کو ختم کرنے کے بعد گلگت بلتستان کی ازادی کا باضابطہ اغاز کر دیا،ا ن خیالات کااظہارانھوں نے اپنے پیغام میں کیا انھوں نے کہاکہ گلگت سکاؤٹس کی اس پوری جدوجہد میں اس وقت کے جنرل ولیم براؤن کا کردار بہت ہی مثالی رہا جو لوکل لوگوں کے جہادی جذبے کو جس نے میز بخشی اور ساتھ دیا ہم بڑے ممنون ہیں کہ اس وقت ہنزہ اور نگر کے راجگان میں بھی راضا کارانہ اس پوری جدوجہد میں اپنے آپ کو پیش کیا اور مہاراجہ کے ناجائز قبضے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے اپنی آزادی کی صبح کو حاصل کرتے ہوئے بالاخر 16 نومبر 1947 کو گلگت بلتستان کے ان سارے شیر دل لوگوں نے پاکستان کے ساتھ باضابطہ الحاق کرتے ہوئے پاکستانی پرچم گلگت بلتستان کے پہاڑ اور ہر کونے اور ہر نگر میں لہرانے کے بعد مہاراجے کی اس ساری باقیات کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا ہم ہم جانتے ہیں کہ مولانا عبدالمنان علیہ الرحمہ اور ان کے ساتھ دیگر بہت سارے ایسے قائدین ہیں کہ جنہوں نے گلگت بلتستان کے چپے چپے میں جاکر لوگوں کو جذبہ جہاد سے بھی سرشار کیا اور گلگت سکاؤٹ کی اس پوری جدوجہد کے کی پشت پر عوام اور نوجوانوں کو لا کھڑا کیا جس کے نتیجے میں آزادی کا بہترین دن گلگت بلتستان کی عوام کو دیکھنا نصیب ہوا اس وقت سے لے کر اس وقت کیونکہ یہ علاقہ کشمیر کی اکائی ہونے کی وجہ سے کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے متنازع ہیں اور جب تک کہ مسئلہ کشمیر کے جس پر کہ سلامتی کونسل نے 13 تک قراردادیں پاس کی ہوئی ہیں اس کا باضابطہ حل نہیں ہوتا تو یہ علاقہ بھی بالکل مظفراباد کی طرح اور سری نگر اور جموں اور لداخ کی طرح اپنی حتمی منزل دو قومی نظریہ کی بنیاد پر حاصل کرنے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے گو کہ مظفراباد ہو یا گلگت بلتستان ہو اس وقت یہ مہاراجہ کے قبضے میں نہیں ہے یا اس کی سکسیشن میں آنے والے کسی اقتدار کے قبضے میں نہیں ہے الحمدللہ یہاں مسلمان حکمران ہیں اور پاکستان کے زیر سایہ یہ دونوں خطے اپنی اپنی تعمیر اور ترقی کے خواب کو پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں لیکن اس موقع پر جہاں ہم گلگت بلتستان کے لوگوں کو دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں وہاں ساتھ ساتھ یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ یا رب رحیم گلگت بلتستان کے لوگ انہیں جس بھی ا کیا سچویشن سے اب تک سامنا رہا ہے بطور خاص ان کی ائینی شناخت وہ کافی حد تک گم رہی انہیں مل پائے ان کو ازاد کشمیر طرز کا سٹیٹس سے صرف ایک ہی صدر ہو کبھی ایک ٹرم میں وہ صدر آزاد کشمیر سے ہو اور دوسری ٹرم میں وہ گلگت بلتستان سے ا ٓجائے اسی طرح جو کشمیر کونسل ہے کشمیر کونسل کشمیر اور جی بی مشترکہ کونسل ہو جس میں برابر تعداد و ممبران کی اور اس طرح یہ کشمیر کی انتہائی حسا س اکائیاں اور بیس کیمپ کے ایک انتہائی اہم جگہیں انہیں باہم مربوط ہو کر اپنا کردار ادا کرنے کاموقع ملے،انھوں نے کہاکہ اسی طرح جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر پوری کوشش میں ہے ایڈوکیسی کر رہی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے درمیان یہ جو مسافتیں ہیں ان مسافتوں کو پاٹنے کے لیے ٹرپل ایم یہ میرپور مظفراباد مانسیرہ جو ایکسپریس وے یہ اور پھر ساتھ ساتھ مظفراباد سے ا شوٹر تک جو ایکسپریس وے کی ایکسٹینشن اور پھر شور انٹرٹنل کے ذریعے مظفراباد یعنی آزاد کشمیر کے دارالحکومت اور گلگت بلتستان کو اپس میں منایا جائے سی پیک کا یہ منصوبہ جب ادھر سے اپنی راہداری کو مکمل کریں تو پھر ہمارے زمینی فاصلے بھی کم ہو جائیں تو گویا زمینی ائینی اور جتنے بھی انتظامی اصلاحات ہیں اس کا ایک جامع پیکج اس پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان دونوں خطوں کو ایک کر دیا جائے،انھوں نے کہاکہ گلگت بلتستان میں یوتھ ایپاورمنٹ ہونی چاہیے وومن ایپاورمنٹ ہونی چاہییئے اور آج کا یوم آزادی ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے ٹیکنیکل کالجز بھی ان تینوں جگہوں پہ ہوں اور ہمارے ہیلتھ سیکٹر ایجوکیشن سیکٹر اور سوشل سیکٹر وہ گروتھ کی طرف جائے اور لوگ ذاتی طور پر اعتماد محسوس کریں کہ جنگلات میں ٹورزم میں اور ہائڈر الیکٹرک پوٹینشل میں ان کی شمولیت اور ان کا ایک طرح سے اونرشپ ہونی چاہیے،سارے ہمارے مستقبل کے خواب اپنے تحریک آزادی یہ بیس کیمپ کے حوالے سے ضرور شرمندہ تعبیر ہوں گے اور اللہ ہمیں موقع دے کہ گلگت بلتستان کے لوگ اور مظفراباد کے لوگ اور اوورسیز سارے کشمیری مہاجرین مقیم جتنے کشمیری یہ مل کر مہاراجہ کی باقیات کے تسلسل کے طور پر جو مظالم لداخ میں جاری ہیں جو جموں اور کشمیر کے لوگوں پر جاری ہیں ان سب کو ختم کرتے ہوئے صبح آزادی کو قریب تر لانے کا ذریعہ اور باعث بنے۔میں تحریک آزادی کشمیر کے جملہ شہداء کو اور تحریک آزادی گلگت بلتستان کے جتنے شہداء ہیں اورر جتنے مجاہدین اور جتنے عوام نوجوان اور خواتین جنہوں نے گلگت اور بلتستان کی ٓازادی کی صبح کو یقینی بنانے کے لیے اپنے اپ کو قربان کیا آج جماعت اسلامی ازاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان کی طرف سے ان سب کو ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں ان کے بلندی درجا ت کے لیے دعاگوہوں۔
0
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل