ڈیلی پرل ویو. ایران اور اسرائیل کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں روس ایک نازک سفارتی توازن برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران کا قریبی اتحادی ہونے کے باوجود روس کے اسرائیل کے ساتھ بھی اہم تعلقات موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے اسرائیل نے ایران کے جوہری اور عسکری اہداف پر “احتیاطی حملوں” کا دعویٰ کیا، جس پر روس کی وزارتِ خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے ان حملوں کو اقوامِ متحدہ کے ایک خودمختار رکن ملک پر “بلا جواز فوجی کارروائی” قرار دیا۔ کریملن جو برسوں سے ایران کا اتحادی ہے، موجودہ بحران کے سفارتی حل پر زور دے رہا ہے۔ ایران میں اسرائیلی حملوں سے 220 سے زائد افراد کی ہلاکت اور 1200 سے زیادہ کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے، جبکہ ایرانی جوابی حملوں میں اسرائیل میں 24 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق روس اور ایران نے شام میں سابق صدر بشار الاسد کی حمایت میں مشترکہ فوجی کارروائیاں کی تھیں، تاہم بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ ایران نے روس کو یوکرین میں استعمال کے لیے شہید ڈرون فراہم کیے، اور اطلاعات ہیں کہ روس نے ایران سے سینکڑوں فَتح-360 میزائل بھی حاصل کیے۔ روسی میڈیا پر حکومت کے حامی مبصرین واضح طور پر ایران کی حمایت کی بات کر رہے ہیں۔ مشہور روسی تجزیہ کار سرگئی مارڈان نے کہا کہ چونکہ اسرائیل امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، لہٰذا روس کے لیے اسرائیل کو کمزور دیکھنا اور اس کے مخالفین کی مدد کرنا ایک فطری بات ہے۔ انہوں نے کہا “اگر آپ کا کوئی دشمن ہے اور اس دشمن کے شراکت دار اور اتحادی ہیں، تو اس کے شراکت دار اور اتحادی خود بخود آپ کے دشمن ہیں۔ اس بارے میں کوئی وہم نہیں، اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ چونکہ اسرائیل امریکہ کا ایک کلیدی اتحادی ہے؛ یقیناً، ہم اسرائیل کو کمزور کرنے اور اس کے مخالفین کی مدد کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔”
