واشنگٹن(کے پی آئی) امریکی نشریاتی ادارے وی او اے نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت والے قانون آرٹیکل 370 کے خاتمے بارے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے سے جموں وکشمیر مایوسی پھیل گئی ہے کشمیری دارالحکومت سری نگر میں ایک سیاسی تجزیہ کار نور محمد بابا نے کہا کہ لوگ خوش نہیں ہیں کیوں کہ کشمیر ی لوگ تاریخی طور پر اپنی شناخت کے بارے میں بہت زیادہ حساس ہیں ۔ وی او اے کے مطابق بہت سے کشمیریوں نے 2019 کے اقدام کو ہندو قوم پرست حکومت کی جانب سے بھارت کے واحد مسلم اکثریتی علاقے کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور علاقے میں زمین کی ملکیت اور مقامی سرکاری ملازمتوں کے حصول کے حوالے سے کشمیریوں کو حاصل تحفظات اور مراعات کے خاتمے کے ایک حربے سے تعبیرکیا ہے۔کشمیر جسے بھارتی وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا، اب براہ راست نئی دہلی کے کنٹرول میں ہے ، جس نے ایسے نئے قوانین منطور کیے ہیں جن کے تحت کشمیر سے باہر کے بھارتیوں کے لیے علاقے کا مستقل رہائشی بننا ممکن ہو گیا ہے۔حکومت نے کہا ہیکہ نئے اقدامات کشمیر کو باقی بھار ت کے ساتھ ہم آہنگ کریں گے ، نئے روزگار تشکیل پائیں گے اور معاشی طور پر ترقی کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔تاہم کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انو رادھا بھسین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے” صرف زمین کا انضمام ہوا ہے کشمیر کے لوگوں کا نہیں ۔انہوں نے کہا کہ آئندہ جو کچھ ہونیوالا ہے اس پر پریشانی اور فکر کا احساس موجود ہے ۔ خطے میں جو ڈیمو گرافک تبدیلی ہو سکتی ہے اس پر علاقے میں حقیقی تشویش موجود ہے۔کشمیر کی مقامی سیاسی جماعتوں نے بھی فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیاہے۔سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں کہا کہ بھارت کا فیصلہ صرف جموں اور کشمیر کے لیے ہی نہیں بلکہ بھارت کے(آئیڈیا ) خیال کیلیے بھی سزائے موت سے کم نہیں ہے۔عدالت عظمی نے فیصلہ دیا ہیکہ قانون ساز اسمبلی کے انتخابات ستمبر تک منعقد کرائے جائیں۔تجزیہ کار نور محمد بابا کہتے ہیں ،اس سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کشمیریوں کی سیاسی آوازوں کو اظہار کا موقع مل سکے۔
0