جموں(کے پی آئی) پونچھ اور راجوری اضلاع میں بھارتی فورسز کی حراست میں ماورائے عدالت قتل ہونے والے تین مقامی شہریوں کے علاوہ 80 سے زائد معصوم کشمیری بھی بھارتی فوج کی حراست میں ہیں ۔دسمبر کو حریت پسندوں کے سرنکوٹ میں ایک حملے میں بھارتی قابض فوج کے 5 جوان ہلاک اور 3 زخمی ہوئے،جوابی کارروائی میں بھارتی فورسز نے پونچھ اور راجوری کی معصوم عوام پر ظلم وجبر کا سلسلہ شروع کر دیا،،بھارتی فورسز نے تقریبا 80 سے زائد معصوم کشمیروں کو قید کر لیا اور تھرڈ ڈگری غیر انسانی ٹارچر کا نشانہ بنایا ،،21 دسمبر کو ہی جموں و کشمیر کے تین شہریوں کو ہندوستانی فوج نے غیر قانونی طور پر تفتیش کی آڑ میں اٹھا لیا تھا،،22 دسمبر کو زیر حراست تینوں کشمیری مردہ حالت میں پائے گئے، دوران حراست فوج کے تشدد سے زخمی ہونے والے 10شہری پونچھ اورسرنکوٹ کے ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ شہید ہونے والے تین شہریوں کو بھارتی فوج نے پوچھ گچھ کے نام پر21دسمبر کوپونچھ میں دیگر افراد کے ہمراہ حراست میں لیاتھا اور اسی شام کو تشدد کرکے شہید کر دیا۔ ،21 دسمبر کو ضلع پونچھ میں مشتبہ عسکریت پسندوں کے دو فوجی گاڑیوں پر حملہ کرنے کے بعد ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی،جموں و کشمیر حکومت نے ٹویٹر پر ایک پوسٹ میں ہلاکتوں کا اعتراف کیا ہے لیکن اموات کی وجوہات کی وضاحت نہیں کی،بھارتی فوج اور جموں و کشمیر پولیس نے بھی شہریوں کی ہلاکتوں کے پیچھے حالات کی وضاحت نہیں کی ہے،مرنے والے شہریوں کی شناخت 43 سالہ محفوظ حسین، 27 سالہ محمد شوکت اور 32 سالہ شبیر احمد کے طور پر کی گئی ہے،،بھارتی پولیس کے عتاب کا نشانہ بننے والے شہری پونچھ کے ٹوپا پیر گاں کے رہائشی تھے۔دوسری جانب مقبوضہ پونچھ میں بھارتی فوج کی حراست میں تین شہریوں کے قتل کے بعد علاقے میں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا دی گئی ہے مواصلاتی ربطے منقطع کر دیے گئے ہیں ۔پونچھ اور راجوری کے اضلاع میں انٹرنیٹ سروس بند کر دی اور مقتولین کے آبائی گاوں کی طرف جانے والی سڑکوں پر مزید فورسز اہلکار تعینات کر دیے۔الجزیرہ نے لکھا ہے کہ متنازعہ جموں کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی زیر حراست تین کشمیری شہریوں کے قتل نے لوگوں میں غم و غصہ پیدا کیا ہے اور واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔الجزیرہ نے ایک رپورٹ میں مقتولین کے اہلخانہ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ بھارتی فوجیوں نے 22 سالہ محمد شوکت، 45 سالہ محفوظ حسین اور 32 سالہ شبیر احمد کو ضلع پونچھ کے گاں ٹوپا پیر سے حراست میں لیا تھا اور بعد میں ان کی لاشیں حوالے کی گئیں۔ شہید محفوظ حسین کے بھائی نور احمد نے الجزیرہ کو بتایا کہ اسکے بھائی کے جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ یہ کیسا انصاف ہے؟ وہ شدید تشدد سے مر گیا۔نور احمد نے کہا کہ فوجی اس کے بھائی محفوظ کو اس کی بیوی اور والدین کے سامنے لے گئے۔حکومت نے ہمارے لیے نوکریوں اور معاوضے کا اعلان کیا ہے ،میرے بھائی کے چار بچے ہیں، لیکن ہم انصاف چاہتے ہیں، ان بے گناہوں کو قتل کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے۔ نور احمد نے کہا کہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا کہ ہم کتنا غم محسوس کرتے ہیں، دنیا کا کوئی پیسہ ہمارے غم کا مداوا نہیںکر سکتا، حکومت ہمیں سب کچھ دے گی لیکن ہمارے زخم نہیں بھریں گے۔بھارتی فوجیوں کے تشدد سے زخمی ہونے والے ایک شخص کی بیٹی کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ہم سمجھوتہ کریں لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے ، فوجیوںنے میرے ابا اور دیگر لوگوں کو بجلی کے جھٹکے دیے ، انکے زخموں پر مرچیں ڈالیں۔
0