مظفرآباد(صباح نیوز)امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر وگلگت بلتستان ڈاکٹر محمد مشتاق خان نے کہا ہے فلسطین میں جاری اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور عالمی دنیا کی خاموشی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔فلسطین اور کشمیر میں جاری ظلم و جبر کے خلاف اور مظلوموں سے اظہار ہمدردی کے لیے جماعت اسلامی آزاد کشمیر مظفرآباد میں دو دسمبر کو فلسطین کشمیر مارچ کا انعقاد کر رہی ہے جس میں تمام مکتبہ فکر کو دعوت دیتے ہیں۔ملت اسلامیہ اس وقت قرب کی حالت میں ہے جس کی وجہ سے یہود وہنود ہیں۔انبیاء کی سرزمین فلسطین پر اس وقت اسرائیلی بربریت جاری ہے اور معصوم لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے دنیا کی 70فیصدآبادی اسرائیل کی جارحیت کی مذمت کر چکی ہے اور پونے دو ارب مسلم امہ اس وقت بے تاب بھی ہے جو کسی راہ داری کا انتظار بھی نہیں کریں گے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مرکزی ایوان صحافت مظفرآباد آزاد جموں وکشمیر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ان کے ہمراہ نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر شیخ عقیل الرحمان، امیر ضلع مظفرآباد راجہ آفتاب احمد، سیکرٹری اطلاعات راجہ ذاکر اور سیکرٹری ضلع شیخ منظور احمد بھی موجود تھے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کے حوالہ سے اس سے قبل تمام علاقائی سیاسی مفادات کو بالائے دست رکھتے ہوئے آل پارٹیز کشمیر کوآرڈینیشن کے زیر اہتمام کشمیر کی پالیسی کے حوالہ سے اقدامات اٹھائے جاتے رہے ہیں جس کو از سر نو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالہ سے مشاورت کا عمل جاری ہے اور ہم تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کو کہتے ہیں کہ تمام ترمفادات سے بالا تر ہو کر کشمیر کی پالیسی کے حوالہ سے مل بیٹھ جائیں۔ عالمی دنیا جو کام گفت وشنید سے حل ہو سکتا ہے اس طرف توجہ دیں تاکہ دنیا کا امن بحال ہو سکے۔انہوں نے کہا کہ اس موقع پر ہم اس خوشی کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ حماس کے مٹھی بھرلوگوں نے جدید ٹیکنالوجی کے حامل اسرائیل کو مات دی اور کشمیریوں کے لیے امید کی کرن روشن کی حماس کی ان کاوشوں کے باعث کشمیریوں کے بھی حوصلے بلند ہوئے ہیں۔حماس کے جانباز سپاہیوں نے پیرا شوٹ کے ذریعے اسرائیلی ٹیکنالوجی کو نست ونابوت کیا اور اسرائیل کو اس حد تک مجبور کر دیا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے پر بھی آگیا۔اس وقت اسرائیلی اپنے ایک قیدی کے بدلے تین فلسطینیوں کو رہا کر رہا ہے جو کہ بڑی کامیابی ہے فلسطین کے ساتھ اس وقت 110ممالک سے زائد حمایت میں ہیں۔لاطینی امریکہ نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کیے اور برطانیہ کے وزیر داخلہ کو غزہ کے حوالہ سے ایک بیان پر استعفیٰ دینا پڑا۔اہل حماس کی کامیابی یہ ہے کہ جو ممالک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے لائینوں میں تھے وہ بھی پیچھے ہٹ چکے ہیں۔اس وقت ملت اسلامیہ دو طبقات میں تقسیم ہوئی ہے عوام الناس ،نوجوان، بزرگ خواتین فلسطین سے اظہار ہمدردی کے لیے دنیا بھر سے نکلیں اور اہل فلسطین کی حمایت کا اعلان کریں۔جبکہ دوسرا حکمران طبقہ خصوصی طور پر عرب ممالک کو سانپ سونگ گیا کہ وہ او آئی سی سمیت عالمی سطح پر فلسطین کے حوالہ سے کوئی موثر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے ہیں۔
0