0

مظفرآباد جسٹس خواجہ محمد نسیم کی شاندار عدالتی خدمات کے اعتراف میں فل کورٹ ریفرنس

ڈیلی پرل ویو.سینئر جج سپریم کورٹ آزاد کشمیر جسٹس خواجہ محمد نسیم کے عہدے کی آئینی مدت کی تکمیل پر ان کی شاندار عدالتی خدمات کے اعتراف میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم محنت اور لگن سے ساڑھے چار سال تک بطور جج کام کرنے کے بعد آج اپنی سروس مکمل کر رہے ہیں، ہم ان کی شاندار خدمات پر ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے یہاں موجود ہیں۔ سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم کا تعلق تحصیل خورشید آباد سے ہے جہاں سے سابق جسٹس خواجہ محمد سعید اور جسٹس خواجہ شہاد احمد نے بطور چیف جسٹس فراہمی عدل میں ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ خواجہ محمد نسیم نے چار سال سے زائد عرصہ میں عوامی مفاد کے مختلف مقدمات میں جو اصول وضع کیے وہ قانون کی کتب میں ایک تاریخ کے طور پر مستقبل کے طلباء اور عدالتوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ آزاد کشمیر کی عدلیہ منصفانہ، دلیرانہ، بے باک اور غیر جانبدار فیصلوں کی بنا پر اپنا ایک تابناک ماضی رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جسٹس خواجہ محمد نسیم نے بطور چئیرمین سروس ٹربیونل اور بطور جج سپریم کورٹ انتہائی اہم فیصلے صادر کئے اور مؤثر اور فوری فراہمی انصاف کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ خواجہ محمد نسیم کی بطور وکیل، چیئرمین سروس ٹربیونل اور جج سپریم کورٹ خدمات کا احاطہ کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔ ان کے فیصلے ہمیشہ قانون کی کتابوں میں موجود رہیں گے اور مستقبل میں طلباء اور وکلاء کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔ سٹیٹ جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی اور سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر کے قیام کے پچاس سال پورے ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کے حوالے سے بھی میرے برادر جج صاحبان کا احسن کردار رہا ہے۔ مجھے پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر میں بہت سے قابل احترام چیف جسٹس صاحبان اور جج صاحبان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا بالخصوص سپریم کورٹ آزاد جموں و کشمیر میں سابق چیف جسٹس جسٹس محمد اعظم خان، جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء اور جسٹس غلام مصطفیٰ مغل کی بہترین رفاقت حاصل رہی اور ما بعد میرے فاضل بھائی جج صاحبان جناب جسٹس خواجہ محمد نسیم اور جناب جسٹس رضا علی خان نے اس سلسلہ کو نہ صرف قائم رکھا بلکہ پہلے سے بہتر انداز میں عدالتی اور انتظامی و دیگرامور کی انجام دہی کو یقینی بنانے میں میری مدد کی جس پر میں دونوں جج صاحبان کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مقدمات کے فیصلوں کا تسلسل برقرار رکھنے میں جہاں میرے فاضل بھائی جج صاحبان کا اہم ترین کردار رہا ہیوہاں ہمارے وکلاء صاحبان نے بھی اپنا تعاون بدستور جاری رکھا۔ مجھے امیدہیکہ ماضی کی طرح مستقبل میں بھی یہ سلسلہ قائم رہے گا اور ریاست کے اس سب سے بڑے ایوان عدل میں مقدمات کے فیصلوں کا تسلسل قائم رکھتے ہوئے عوام کوفوری اور مؤثر انصاف کی فراہمی جاری رہے گی۔ ایک جج کی ذمہ داری صرف قانون کی تعبیرو تشریح اور اس کی اطلاق پزیری ہی نہیں ہے بلکہ اس آئین کی تعظیم و تکریم بنیادی تقاضا ہے جس کے تحت اس جج نے حلف اٹھا لیاہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ نہایت شاندار عدالتی خدمات انجام دینے کے بعد آئینی مدت کی تکمیل پر فل کورٹ ریفرنس کے ذریعے اپنے ایک فاضل بھائی جج جسٹس خواجہ محمد نسیم کو ہدیہ تبریک پیش کرنا ایک طرف نہایت خوشی اور اطیمنان کا باعث ہے جب کہ دوسری جانب اداسی اور دکھ کا باعث ہے۔ اداسی اس بات پر ہے کہ میرے فاضل بھائی جج صاحب کمرہ عدالت میں اب ہمارے ساتھ موجود نھیں ہو ں گے لیکن خوشی اس بات پر ہے کہ انھوں نے کامیابی کے ساتھ حلف نامہ کے تقاضے پورے کر لئے ہیں۔جسٹس خواجہ محمد نسیم صاحب اپنے فیصلوں، اپنے کردار، اپنی پیشہ ورانہ لگن، نظام فراہمی انصاف اور آئین اور قانون کی حکمرانی کے ساتھ وابستگی کی بدولت ہمیشہ ہم سب کی یادوں میں موجودرہیں گے۔ آخر میں اپنی جانب سے موصوف کے لئے صحتمند اور خوش و خرم زندگی کے لئے دعا گو ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو آئندہ زندگی میں خوشیاں اور کامیابیاں عطا فرمائے۔سبکدوش ہونے والے سینئر جج عدالت العظمیٰ جسٹس خواجہ محمد نسیم نے اپنے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 1987 میں ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا مظفرآبادمیں بطور وکیل کام کا آغاز کیا۔ 1992 میں ہائی کورٹ جب کہ 1999 میں سپریم کورٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ عرصہ اٹھائیس سال تک بطور وکیل خدمات انجام دینے کے بعد میری elevation بطور چئیرمین سروس ٹربیونل مؤرخہ 20 مارچ 2017 کو عمل میں لائی گئی۔ چار سال تک چئیرمین سروس ٹربیونل کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعدمورخہ 23 مئی 2021 کومیری elevation بطور جج سپریم کورٹ عمل میں آئی۔ میں نے تقریبا ًچار سال اور 4 ماہ بطور جج سپریم کورٹ فرائض ِمنصبی انجام دیئے اور اس دوران نہایت ہی اہم ترین مقدمات میں سماعت کا سامنا ہوا اور الحمدللہ اپنے آئینی حلف کی پاسداری کو مد نظر رکھتے ہوئے فراہمی انصاف میں اپنا کردار ادا کیا۔عدل و انصاف کی ذمہ داری بہت ہی کٹھن آزمائش ہے۔ جج کی ذمہ داری بدوں تاخیر، بدوں اثر و رسوخ اور بغیر خوف، طمع و لالچ کے رائج الوقت قوانین کے مطابق فیصلہ صادر کرنا ہے۔ نظام انصاف ریاست کی بقا اور ترقی کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ جس ملک میں سیاسی اور انتظامی سطح پر انصاف نہ ہو وہاں پر لوگوں کی امیدیں عدالتوں سے وابستہ ہو تی ہیں۔ ایک جج کو صبر، برداشت، عفو و درگزر کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اسی صورت میں جج انصاف کر سکتا ہے۔ حضرت شیخ سعدی فرماتے ہیں میں پوری زندگی دو بندوں کو تلاش کرنے پر کبھی تلاش نہ کر سکا ایک وہ جس نے اللہ کے نام پر دیا ہو اور غریب ہو گیا ہو اور دوسرا وہ جس نے ظلم کیا ہو اور اللہ کی پکڑ سے بچ گیا ہو۔ بنچ اور بار کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ بنچ اور بار یک جان دو قالب ہوتے ہیں۔ انصاف کی بروقت فراہمی میں ججز اور وکلا اپنا اپنا کردار ادا کریں تو عوام کو جلد اور سستا انصاف مل سکتا ہے۔ جج اپنے فیصلوں سے اور وکیل اپنے پیشہ سے پہچانا جاتا ہے اور دونوں کو برابر حساب دینا ہو گا۔میرے نزدیک ایک جج کو دیانتداری، راست گوئی، مضبوط اعصاب، شائستگی، صبر، کھلے ذہن اور انسانی ہمدردی کی سوچ کا حامل ہونا چاہیئے۔ مقدمات کے حقائق کا تجزیہ کرنے، تمام قوانین کو سمجھنے اور ان قوانین کی اطلاق پزیری کا تعین کرنے کی صلاحیت انتہائی اہم اور توجہ طلب ہے۔ جج میں کام کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے جس کا آئین اور قانون مطالبہ کرتا ہے۔ ایک مشہور یونانی فلسفی سقراط نے ایک اچھے جج کی ضروری خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جج کو محبت سے سننے والا، دانشمندی سے جواب دینے والا, سنجیدگی سے غور کرنے والا اور غیر جانبداری سے فیصلہ صادر کرنے والا ہونا چاھئے۔پیشہ عدل اور مقدمات کا فیصلہ ایک قومی فریضہ ہی نہیں بلکہ عبادت بھی ہے۔ کسی بھی مقدمہ میں درست نتیجہ پر پہنچنے کے لئے وکلاء کی معاونت انتہائی اہم ترین ہے۔ بلا شبہ ہمارا عدالتی نظام جہاں ایک طرف وکلاء سے عدالتی نظم و نسق کو برقرار رکھنے اور قانونی معاونت کا تقاضا کرتا ہے وہاں عدلیہ سے اس بات کی بجا طور پر توقع بھی کی جاتی ہے کہ وہ بھی عدالتی اختیار اور طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے احتیاط کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ میری رائے میں اگر بینچ اور بار کے مابین احترام اور وقار کا رشتہ اصولوں کی بنیاد پر قائم ہو جائے تو اس سے یقیناً عدالتی ماحول کو خوشگوار بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے تو اس میں کوئی شک اور مبالغہ نہیں ہے کہ اللہ رب العزت نے جن بے پناہ نعمتوں اور عنایات سے مجھے نوازا ہے میں خود کو قطعی طور پر اس کا اہل نھیں سمجھتا تھا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم, میرے والدین اور میرے خیر خواہوں کی خصوصی دعاؤں کا نتیجہ ہے اور اس ذات باری تعالیٰ نے بچپن سے لیکر تعلیم کی تکمیل تک اور پھر پیشہ وکالت سے لے کر جج عدالت عظمیٰ elevation کے سفر تک میرے لئے اسباب مہیا کئے اور اپنی بے پناہ نعمتوں اور نوازشات کی مجھ نا چیز پر بارش کر دی اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے۔وکالت کا پیشہ ایمانداری، جرات اور دانشمندی کے مجموعہ کا نام ہے۔ ایک کامیاب وکیل بننے کے لئے صبر، مسلسل محنت اور خود اعتمادی لازم ہے۔ یاد رکھیں کہ رزق اللہ دیتا ہے اور محنت آپ کا فرض ہے۔ وکلاء ہمیشہ قانون اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق کام کریں۔ جس معاشرہ میں قابل محنتی وکلا ہوں گے اس معاشرہ کو اچھے جج بھی دستیاب ہوں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وکلاء ہی دراصل وہ نرسری ہیں جس سے عدلیہ کا باغ تیار ہوتا ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ جس قدر نرسری سرسبز اور توانا ہو گی باغ میں اسی قدر خوبصورت، لازوال اور خوشبودار پھول کھلیں گے۔ بار اور بینچ ممبر کی حیثیت سے ہم مشترکہ انصاف کی تقلید اور پابندی کے ذمہ دار ہیں۔ وکلاء نے پیشہ ورانہ طور پر حقائق اور قانون کے دائرے میں رہ کر عدالت کی معاونت کرنا ہوتی ہے۔ اچھے وکیل کے لئے سب سے ضروری عنصر نڈر اور با ضمیر ہونا ہے۔ میں اس موقع پرچیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر اور اپنے قابل احترم بھائی جج کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی حمایت اور رہنمائی کے باعث سپریم کورٹ میں elevation کے عمل سے لے کر ریٹائرمنٹ تک کا سفر انتہائی احسن طریقہ سے مکمل ہوا۔سپریم کورٹ میں بطور جج چار سال چار ماہ پر محیط عرصہ میں پانچ مرتبہ مجھے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر فرائض منصبی انجام دینے کا اعزاز نصیب ہوا اور یہ چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر کے خصوصی اعتماد اور بے انتہا بھروسے کی بدولت ممکن ہوا ہے۔میں ایک بار پھر سے چیف جسٹس کے اعتماد کا بھرپور شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اسی طرح کمرہ عدالت میں موجو د وکلا صاحبان اور بالخصوص آزاد جموں و کشمیر کے جملہ وکلاء کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے میری دو مرتبہ elevation کے معاملہ کوکھلے دل سے قبول کیا۔ فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان نے کہا کہ میں اپنے آپ کو واقعی خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ اس معزز عدالت میں شمولیت کے بعد مجھے دو نہایت قابلِ احترام جج صاحبان کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل ہوا—معزز چیف جسٹس اور میرے بزرگ ساتھی، معزز جناب جسٹس خواجہ محمد نسیم ان کی رفاقت نے مجھے یہ نایاب موقع فراہم کیا کہ نہ صرف پیشہ ورانہ زندگی میں بلکہ وقار اور انکساری کے ساتھ زندگی گزارنے کے لطیف فن میں بھی بہت کچھ سیکھ سکوں۔ میں بالخصوص معزز چیف جسٹس کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ہمیشہ مجھ پر اور میرے بزرگ ساتھی پر اعتماد کیا۔ یہ اعتماد ہماری حوصلہ افزائی کا سبب بنا کہ ہم اپنے آئینی فرائض کو دیانت اور وفاداری کے ساتھ ادا کریں۔ جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان نے فل ریفرنس کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن میرے لیے فخر کا باعث ہے لیکن ساتھ ہی ایک گہری جذباتی کیفیت بھی ہے کیونکہ میں اپنے معزز بھائی جج اور عزیز دوست جسٹس خواجہ محمد نسیم کو اس معزز ادارے سے ریٹائرمنٹ کے موقع پر خراجِ تحسین پیش کر رہا ہوں۔ گزشتہ چار برس چھ ماہ ہم نے نہ صرف ایک ہی بنچ پر ساتھ بیٹھ کر عدالتی ذمہ داریاں نبھائیں بلکہ بہت سے سفر بھی ایک ساتھ کیے۔قدم بہ قدم ساتھ چلے، خوشی و غم کے لمحے بانٹے اور گہرے تفکر کے لمحات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ عمر اور منصب میں مجھ سے بزرگ ہونے کے باوجودآپ نے ہمیشہ مجھے چھوٹے بھائی کی طرح عزت دی۔عدالتی کارروائی کے بعد وہ میرے ساتھ بیٹھ کر ہر قانونی نکتے پر بحث فرماتے اور نہایت صبر و احترام کے ساتھ میری رائے سنتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ ہماری مشترکہ عدالتی زندگی کا حصہ بن گیا۔ ان کی مستقل موجودگی، سنجیدہ گفتگو اور روزمرہ کی رفاقت ایسی عادت بن گئی ہے جس سے جدائی آج نہایت کٹھن محسوس ہو رہی ہے۔ ان کا تعلق ہماری زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا تھا، اور آج اس بنچ کو ان کی موجودگی کے بغیر سوچنا بھی مشکل ہے۔آپ نے بے شمار ایسے فیصلے تحریر کیے جو اس عدالت کی پچاس سالہ عدالتی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور بار اور بنچ دونوں کے لیے رہنمائی اور قانونی بصیرت کے ذخیرے کے طور پریاد رکھے جائیں گے۔ آپ نے کبھی صرف غیرجانبداری میں پناہ نہیں لی، بلکہ ہمیشہ حق کو پہچاننے اور اسے قائم رکھنے کا حوصلہ اور بصیرت دکھائی، خواہ وہ فیصلہ کتنا ہی مشکل یا غیرمقبول کیوں نہ ہو۔آپ کے فیصلے آج بھی اسی اصول کی زندہ گواہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج اس موقع پرخوشی اس بات کی کہ ہم ایک شاندار عدالتی کیریئر کا جشن منا رہے ہیں، لیکن اداسی اس لیے کہ ہم ایسے رفیقِ کار کو الوداع کہہ رہے ہیں جس کی دانائی، رفاقت اور عدالتی مزاج نے نہ صرف اس عدالت کو سنوارا بلکہ انصاف کے نظام پر عوام کے اعتماد کو مزید مضبوط کیا۔آپ اپنے فیصلوں، اپنے اصولوں اور اس تحریک میں جو وہ بنچ اور بار دونوں کے لیے چھوڑ کر جا رہے ہیں ہمارے ساتھ رہیں گے۔ اگرچہ اس بنچ پر ان کی کرسی خالی ہو جائے گی، لیکن وہ ہمیشہ ان کی میراث اور انصاف کی خاطر ان کی زندگی بھر کی وابستگی کی علامت بنی رہے گی۔میں اپنی طرف سے اور اس عدالت کی طرف سینئر جج جسٹس خواجہ محمد نسیم کو صحت مند، پر سکون اور خوشحال زندگی کی نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ آنے والے برس بھی اتنے ہی بامعنی اور بابرکت ہوں جتنے برس انہوں نے قانون اور انصاف کی خدمت میں گزارے ہیں۔ اس موقع پروائس چئیرمین آزاد جموں و کشمیر بار کونسل عقاب ہاشمی، صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن جاوید نجم الثاقب، صدر ہائی کورٹ بارراجہ وسیم، صدر سنٹرل بار ایسوسی ایشن انیس الحسن گیلانی،خواجہ مقبول وار ایڈووکیٹ،راجہ ابرار ایڈووکیٹ، اصغر علی ملک ایڈووکیٹ، چوہدری شوکت عزیز، میر شرافت حسین ایڈووکیٹ، چوہدری امجدعلی ایڈووکیٹ و دیگر مقررین نے جسٹس خواجہ محمد نسیم کی شاندار عدالتی خدمات کا تفصیلی احاطہ کیا اورکو خراج پیش کیا۔ جسٹس خواجہ محمد نسیم نے محنت، ایمانداری، دیانت داری اور خلوص نیت کو اپنی زندگی کا شعار بنائے رکھا، جسٹس خواجہ محمد نسیم کی کار کردگی میں بصیرت، انتھک محنت، لگن اور پیشہ ورانہ صلاحیتیں متاثر کن اور بے مثال نظر آتی ہیں۔ مقررین نے کہا کہ آپ کی گرانقدر خدمات اور تعاون کے بغیر نظام انصاف کی بہتری کی طرف پیش رفت ممکن نہ تھی۔ آپ نے مقدمات کی تیزی سے سماعت، فوری انصاف کی فراہمی آئین و قانون کی بالا دستی کے لیے فقید المثال کردار ادا کیا۔ آپ نے آزادانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلے صادر فرمائے۔سپریم کورٹ کا عہدہ بہت بڑا عہدہ ہے مگر جسٹس خواجہ نسیم صاحب نے اپنے کردار اور commitment کے باعث اس عہدے کو نہ صرف وسعت بخشی بلکہ اس عہدہ کے لیے مزید تکریم کا باعث بنے۔جج elevate ہونے سے پہلے آپ کا شمار آزادکشمیر کے نمایاں وکلا میں ہوتا تھا اور بحیثیت وکیل آپ سے ہم سب کو بہت سیکھنے کو ملا۔ مقررین نے کہا کہ Retirement کے بعد آپ کی عدالتی خدمات کو اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے گا۔ کسٹوڈین جائداد متروکہ، چئیرمین ان لینڈ ریونیو، چئیرمین انوائرمنٹل ٹربیونل، جج الیکشن ٹریبونل، آزاد جموں وکشمیر بار کونسل، سپریم کورٹ بار، ہائی کورٹ بار، سنٹرل بار اور ڈسٹرکٹ بار کے عہدیداران و ممبران، وکلاء و دیگر نے شرکت کی۔ اس موقع پر چیف جسٹس آزاد جموں وکشمیر جسٹس راجہ سعید اکرم خان، جج سپریم کورٹ جسٹس رضا علی خان نے سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم کو تحائف دیے۔فل کورٹ ریفرنس کے اختتام پر چیف جسٹس ہائی کورٹ جسٹس سردار لیاقت حسین، سینئر جج ہائی کورٹ جسٹس سید شاہد بہار، جج ہائی کورٹ جسٹس سردار اعجاز خان کی سپریم کورٹ آمد، سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ محمد نسیم سے الوداعی ملاقات کی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں