ڈیلی پرل ویو،مظفرآباد(نامہ نگار)نیشنل ایم این سی ایچ پروگرام کے کنٹیجنٹ ملازمین اور سی ایم ڈبلیو کو ایک سال کی تنخواہوں اور بلاجواز فراغت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کے لیے حکومت وقت کو ایک ہفتے کا ٹائم فریم دے دیا۔ ریاست کی تینوں ڈویژنز سے سیکڑوں کنٹیجنٹ ملازمین نیشنل ایم این سی ایچ جن میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب مارچ کرتے ہوئے تادم مرگ احتجاجی دھرنا دیں گی۔نیشنل ایم این سی ایچ پروگرم کے کنٹیجنٹ ملازمین نے دوبارہ سے احتجاج کے لیے سر جوڑ لیے۔ نیشنل ایم این سی ایچ کنٹیجنٹ ملازمین جن کی سروس 16 سے 17 سال ہو چکی ہیں کو اس طرح بیک جنبشِ قلم فارغ کرنا معاشی قتل عام کے مترادف ہے۔ موجودہ گورنمنٹ نے ظلم کی انتہا کر رکھی ہے۔آزاد کشمیر کے 10 اضلاع سے کنٹیجنٹ ملازمین جن میں سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے جو گزشتہ ایک سال کی تنخواہوں سے بھی محروم ہیں جن کے گھروں میں فاقہ کشی، بچوں کی فیس، دکانداروں سے جو ادھار لیا گیا ان کی ادائیگیاں بھی نہ ہو سکی ہیں۔جو کہ موجودہ گورنمنٹ کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ ایک سال کے بقایا جات اور جبرا” فارغ کرنا گورنمنٹ کی جھوٹی پالیسیوں کانہ بولتا ثبوت ہے۔ 240 کنٹیجنٹ ملازمین میں سے گزشتہ عرصہ احتجاج کرنے کے بعد صرف 100 کنٹیجنٹ ملازمین رہ گیے تھے ان کو بھی بلا جواز فارغ کر دیا گیا ہے جبکہ وزیراعظم آزاد کشمیر نے احتجاج کے دوران یہ اعلان بھی کیا تھا کہ آپ کو کوئی مائی کا لال فارغ نہیں کر سکتا۔ دو سال کے لیے اپ کی توسیع کر دی گئی ہے مگر دوسری طرف سو کنٹیجنٹ ملازمین کو ایک سال کی تنخواہیں بھی ادا نہیں کی گئیں اور بہترین فرائص منصبی کی انجام دہی کے باوجود گزشتہ ایک سال سے وہ اپنی تنخواہوں کے لیے دربدر کی خاک چھاننے پر مجبور ہیں۔نیشنل ایم این سی ایچ پروگرام کے کنٹیجنٹ ملازمین نے دیگر ملازمین تنظیمات سے مشاورت مکمل کرنے کے بعد حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایک سال کی تنخواہ اور فراغت نامہ منسوخ نہ کیا گیا تو پھر ریاست گیر احتجاج کے علاؤہ دارالحکومت مظفرآباد میں تا دم مرگ احتجاج کیا جائے گا جس کی زمہ داری حکومت محکمہ صحت عامہ آزاد کشمیر پر عائد ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک ہفتے کے اندر اندر ہماری تنخواہوں کی ادائیگیاں اور ہمیں بحال نہ کیا گیا تو ریاست گیر احتجاج کریں گے۔ کنٹیجنٹ ملازمین نے کہا ہے کہ ہم نے ہر دروازہ کھٹکھٹانے، چیف سیکرٹری آزاد کشمیر،سیکرٹری صحت عامہ و دیگر ارباب اختیار سے رابطہ کرنے کے باوجود کوئی حل نہ نکل سکا ہے۔ وزیر صحت انصر ابدالی اپنی ضد پر ڈٹے ہوئے ہیں لیکن دوسری جانب کنٹیجنٹ ملازمین کی ایک بڑی تعداد بالائی حد عمر عبور کر چکے ہیں۔حکومت کی جانب سے 17 سال کی سروس کے بعد نارمل میزانیہ کا وعدہ کرنے کے باوجود فارغ کرنا انتہائی ظلم اور معاشی قتل عام کے برابر ہے۔ کنٹیجنٹ ملازمین وقار سلہریہ، لعل دین خواجہ، نازیہ بلیقس، سی ایم ڈبلیو صدر لبنی ظہراب، عطیہ عباسی، فرزانہ کاظمی، شہناز اختر و دیگر نے مذید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں نیشنل ایم این سی ایچ پروگرام کے ملازمین نارمل میزانیہ پر منتقل ہو چکے ہیں لیکن آزاد کشمیر حکومت میں نہ مانوں اور اقربا پروری میں مصروف ہے۔آئے روز کی ریاستی بلاجواز افراتفری کے تناظر میں سی ایم ڈبلیو جو کہ آئین کے مطابق ایم این سی ایچ پروگرام کا حصہ ہیں، جس کا مقصد صرف سی ایم ڈبلیو کمیونٹی میڈ وائف کو ہی ترجیح دی جائے گی لیکن آزاد کشمیر گورنمنٹ نے ایم این سی ایچ پروگرام کو مختلف کیڈروں میں تقسیم کرتے ہوئے سی ایم ڈبلیو کو بھی بائی پاس کر رکھا ہے۔ 2010 کے درمیان نیشنل ایم این سی ایچ پروگرام کو سی ایم ڈبلیو کو بائی پاس کرتے ہوئے سیاسی رنگ دیتے ہوئے سٹاف کو تعینات کی گیا جو کہ آئین کی خلاف ورزی اور فنڈز کی خورد برد کا ایک طریقہ تھا۔اپنی سیاسی دکان کو چمکانے کے لیے ایم این سی ایچ پروگرام کو کھڈے لائن لگا دیا گیا ہے اس پروگرام کا مقصد صرف کمیونٹی مڈ وائف سی ایم ڈبلیو جو کہ پاکستان کے آئین میں موجود ہے، لیکن آزاد کشمیر میں سی ایم ڈبلیو کو بائی پاس کرتے ہوئے غیر ضروری سٹاف کو تعینات کیا گیا، جس پر سیکرٹری صحت عامہ نے بڑا ایکشن بھی لیا تھا لیکن وہ بھی بے بس نظر آ رہے ہیں۔انہوں نے چیف سیکرٹری آزاد کشمیر سے مطالبہ کیا ہے کہ نیشنل ایم این سی ایچ پروگرام میں ہونے والی بے ضابطگیوں،لوٹ مار اور بلاجواز سو سے زائد کنٹیجنٹ کی ایک سال سے زیادہ تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور بلاجواز فراغت پر نوٹس لیتے ہوئے انکی تنخواہیں کی ادائیگی اور انہیں بحال کروانے میں کردار ادا کریں۔

- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل