0

آشوبِ چشم، جسے کنجنکٹیوائٹس بھی کہتے ہیں ضرار جگوال

ڈیلی پرل ویو،ہوا میں ایک عجیب سی نمی ہے، موسم بدل رہا ہے، مگر اس بار صرف پتوں کی سرسراہٹ یا بارش کی خوشبو نہیں آئی آئی ایک سرخی، جو آنکھوں سے نکل کر دل تک پہنچی۔ آشوبِ چشم، جسے کنجنکٹیوائٹس بھی کہتے ہیں، ایک سادہ سا لفظ لگتا ہے، مگر اس کے پیچھے چھپی اذیت، بےچینی، اور بے خبری نے آزاد کشمیر کے سیکٹروں لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دو سال پہلے 2023 کے ستمبر میں پاکستان نے ایک خاموش مگر خطرناک وبا کا سامنا کیا۔ پنجاب میں سیکڑوں کیسز رپورٹ ہوئے، اسکول بند کیے گئے، دفاتر میں چھٹیاں ہوئیں، اور سب سے بڑھ کر، ہر چہرے پر ایک خوف طاری ہو گیا تھا سرخ آنکھوں کا خوف۔آشوبِ چشم عام طور کسی بھی مہینے یا موسم میں پھیلتا ہے۔ ہوا میں موجود جراثیم، پانی کی آلودگی، اور لوگوں کے درمیان رابطے کی کثرت اس کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کل آزاد کشمیر میں بہت سے ایسے مریض نظر آنے لگے گئے ہیں اس بار، جیسے سب کچھ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے کنجنکٹیوائٹس دراصل آنکھ کی بیرونی جھلی، یعنی conjunctiva کی سوزش ہے۔ یہ جھلی وہ نرم بافت ہے جو پلکوں کے اندر اور آنکھ کے سفید حصے کو ڈھانپتی ہے۔ جب یہ جھلی کسی وائرس، بیکٹیریا، یا الرجی کے سبب سوجھتی ہے تو ہم اسے آشوبِ چشم کہتے ہیں۔سب سے زیادہ عام، اور اکثر نزلہ زکام کے ساتھ آتا ہے۔ اس میں آنکھوں میں خارش، پانی بہنا اور سرخی نمایاں ہوتے ہیں۔ زیادہ خطرناک، کیونکہ اس میں گاڑھی پیپ جیسا مادہ بھی آنکھ سے نکلتا ہے، اور آنکھیں چپک جاتی ہیں۔ یہ اسکولوں، دفاتر اور ہسپتالوں میں تیزی سے پھیلتا ہے۔گردوغبار، پھولوں کے ذرات، یا جانوروں کے بال وغیرہ سے حساس افراد میں پیدا ہوتا ہے۔ اس میں شدید خارش، پانی آنا، اور دونوں آنکھوں میں سرخی شامل ہوتی ہے۔ دھوئیں، کلورین یا دیگر کیمیکل مواد کے باعث ہوتا ہے، جو فیکٹریوں یا سوئمنگ پولز میں زیادہ ہوتا ہے۔ان سب اقسام کی علامات الگ ہوتی ہیں، اور ہر ایک کا علاج مختلف۔ مگر مسئلہ تب ہوتا ہے جب لوگ خود تشخیص کرتے ہیں، اور دواؤں کا غلط استعمال شروع کر دیتے ہیں یہیں سے آغاز ہوتا ہے ۔ ماہرین کا کہتے ہیں کہ ہوا میں نمی کی کمی، لوگوں کا ایک دوسرے کے قریب ہونا، آلودگی، اور صفائی کی کمی اس تیزی سے پھیلاؤ کی بڑی وجوہات ہیں۔ مزید کچھ دن میں یہ وبا صرف جسمانی نہیں یہ ایک ذہنی دباؤ، ایک سوشل خوف، اور ایک سسٹم کے بے بس ہونے کی علامت بن سکتی ہے ۔ آشوبِ چشم کی سب سے نمایاں علامت ہے آنکھوں میں سرخی ۔خارش، جو نیند میں بھی سکون نہیں دیتی پانی، جو بغیر روئے آنکھوں سے بہتا ہے پیپ، جو پلکوں کو چپکا دیتا ہے نظر کی دھندلاہٹ اور کبھی سر درد یا گلا خراب ہونا بھی شامل ہیں۔ بچوں میں یہ علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں، کیونکہ وہ بار بار آنکھیں رگڑتے ہیں، جس سے انفیکشن مزید پھیلتا ہے۔ الرجک آشوبِ چشم میں خارش بہت زیادہ ہوتی ہے، جبکہ بیکٹیریئل میں پیپ واضح ہوتی ہے۔وائرس والی صورت میں اکثر دونوں آنکھیں متاثر ہوتی ہیں۔ یہ علامات جسمانی تکلیف تو دیتی ہی ہیں، مگر ان کے ساتھ ساتھ انسان کی خود اعتمادی، معاشرتی روابط، اور روزمرہ زندگی بھی متاثر ہو جاتی ہے۔ایک معصوم بچہ جو اسکول نہیں جا سکتا ایک ملازم جو دفتر میں جانے سے گھبرا رہا ہو ایک ماں جو بچے کی سرخ آنکھ دیکھ کر پریشان ہو یہ سب علامات سے زیادہ گہرے اثرات ہیں۔ جب آشوبِ چشم کی وبا پھیلتی ہے، تو سب سے پہلا مورچہ ہماری ذاتی صفائی ہوتی ہے۔ آنکھیں روزانہ گردوغبار، دھوئیں، اور جراثیم سے براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔ اس لیے روزانہ چہرہ اور آنکھیں دھونا ضروری ہے، خاص طور پر باہر سے آنے کے بعد ہاتھوں کو صابن سے ایک منٹ تک دھونا ایک چھوٹا عمل لگتا ہے، مگر آشوبِ چشم جیسے وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے میں بہت مؤثر ہوتا ہے۔ آنکھوں کو بلاوجہ چھونا، رگڑنا یا گندے ہاتھ لگانا خطرے کی گھنٹی ہے۔ جب صفائی ہماری عادت بن جائے، تو بیماری کے لیے کوئی راستہ باقی نہیں بچتا۔ایک عام سی غلطی تولیے، تکیے، موبائل، آئی ڈراپس، اور چشمہ دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا آشوبِ چشم کے پھیلاؤ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ یہ مرض اکثر contact spread کے ذریعے ہوتا ہے۔ یعنی جس نے آنکھیں ملیں، اس کا ہاتھ دوسرے کے چہرے تک گیا، اور وہ بھی متاثر ہو گیا لہٰذا ہر فرد اپنی اشیاء الگ رکھے گھروں میں بچوں کو خصوصی طور پر سکھایا جائے کہ چشمہ، رومال، یا بیڈ شیٹ بانٹنا بیماری بانٹنے کے مترادف ہےجب بچے اسکول میں بیٹھے ہوں یا ملازمین دفاتر میں کام کر رہے ہوں، اور ایک شخص بھی آشوبِ چشم سے متاثر ہو، تو پورا ادارہ خطرے میں آ جاتا ہے۔اسکولوں میں hygiene periods ہونے چاہییں، جہاں بچوں کو ہاتھ دھونے، آنکھیں صاف رکھنے اور علامات پہچاننے کا شعور دیا جائے دفاتر میں awareness posters، ماسک، sanitizer، اور فوری چھٹی کی سہولت مہیا ہونی چاہیے عوامی مقامات پر اگر ایک شخص احتیاط کرے تو درجنوں کو بیماری سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ آنکھیں بھی جسم کا ایک عضو ہیں، جنہیں rest، nutrients اور hydration کی ضرورت ہے۔روزانہ 7-8 گھنٹے کی نیند ضروری ہے وٹامن اے، وٹامن سی، زنک، اومیگا 3، اور اینٹی آکسیڈنٹس آنکھوں کی قدرتی قوتِ مدافعت بڑھاتے ہیں پانی کی کمی آنکھوں کو خشک کر دیتی ہے، جو بیماریوں کے لیے زمین ہموار کر دیتی ہے یاد رکھیں آنکھ صرف دیکھنے کا ذریعہ نہیں، یہ اندرونی صحت کی ترجمان ہے۔ آشوبِ چشم کی ابتدا ہلکی خارش یا آنکھوں میں پانی سے ہوتی ہے۔ مگر ہم اکثر اسے نظرانداز کر کے بیماری کو بڑھنے دیتے ہیں۔اگر ان علامات کا فوراً نوٹس لیا جائے جیسے سرخی ہلکی خارش ، آنکھوں کا دھندلا دکھنا، آنکھوں سے مواد (پانی یا پیپ) نکلنا تو بیماری کی شدت کو روکا جا سکتا ہے۔ پہلا دن ہی فیصلہ کن ہوتا ہے یا تو بچا جا سکتا ہے، یا پھر سب کچھ ہاتھ سے نکل سکتا ہے۔ اگر کسی گھر میں ایک فرد متاثر ہو جائے تو اس کے لیے”home isolation ضروری ہے۔ ہم عموماً صرف کورونا میں احتیاط کرتے ہیں، مگر آشوبِ چشم بھی تیزی سے پھیلنے والی وبا ہے۔ بیمار فرد کے رومال، تکیے، چادر، کپ، تولیہ الگ ہوں ، گھر کے باقی افراد ماسک پہنیں ۔ کھڑکیاں کھلی رکھی جائیں تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہو گھر میں sanitizer اور antiseptic wipes کا استعمال معمول بنا لیا جائے یہ چھوٹی چھوٹی احتیاطیں پوری فیملی کو متاثر ہونے سے بچا سکتی ہیں۔اکثر لوگ علامات دیکھتے ہی قریبی میڈیکل اسٹور سے کوئی بھی آئی ڈراپ خرید لیتے ہیں، یا کسی رشتہ دار کی بچی ہوئی دوا استعمال کر لیتے ہیں۔ یہ عمل فائدے سے زیادہ نقصان دے سکتا ہے۔ ہر قسم کے آشوبِ چشم (وائرل، بیکٹیریئل، الرجک) کا علاج مختلف ہوتا ہے غلط دوا سے آنکھوں میں جلن، الرجی، یا حتیٰ کہ بینائی متاثر ہو سکتی ہے صرف مستند ڈاکٹر سے معائنہ اور تجویز کردہ دوا استعمال کریں اپنے لیے نہیں تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کے لیے تو احتیاط کریں۔ دیسی ٹوٹکے ہر گھر میں مشہور ہیں عرقِ گلاب، نیم کا پانی ، ٹھنڈی پٹیاں ،کھیرا رکھنا یہ سب مفید ہیں صرف ابتدائی خارش یا خفیف علامات میں۔ مگر اگر انفیکشن بڑھ گیا ہو تو دیسی علاج سے صرف وقت ضائع ہو گا۔علاج اور گھریلو تدابیر میں فرق سمجھنا بہت ضروری ہے۔ اگر علامات دو دن سے زیادہ ہوں تو ڈاکٹر کو دکھائیں، نہ کہ یوٹیوب پر گھریلو نسخے تلاش کریں۔ آشوبِ چشم سے بچاؤ صرف فرد کی ذمہ داری نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی ہے۔ میڈیا چینلز پر شعور بیدار کرنے والے اشتہارات چلنے چاہییں ، مساجد میں خطبات کے دوران احتیاطی تدابیر بیان کی جائیں کمیونٹی سینٹرز، محلے کی دکانیں اور اسکول والے لوکل پوسٹرز آویزاں کریں جب معاشرہ بیماری کو سنجیدہ لے گا، تب ہی بچاؤ ممکن ہو گا۔ آشوبِ چشم کو صرف ایک وقتی وبا نہ سمجھیں، بلکہ یہ ایک تنبیہ ہے کہ ہم اپنی بنیادی صحت کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ آنکھیں صرف دیکھنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ جذبات کی ترجمان ہیں علم کی کنجی ہیں اور زندگی کی روشنی کا چراغ ہم ان کی حفاظت کریں گے تو نہ صرف بیماری سے بچیں گے، بلکہ ایک صحت مند، ذمہ دار اور باشعور قوم بنیں گے۔ وبائیں صرف جسم پر نہیں، نظام پر حملہ کرتی ہیں۔جب آشوبِ چشم کی وبا نے آزاد کشمیر کو جکڑا، تو یہ محض ایک طبی چیلنج نہیں ہے یہ حکومت کے ردِعمل، تیاری اور حکمتِ عملی کا بھی امتحان ہے کیا آزاد کشمیر حکومت کے پاس وبائی امراض سے نمٹنے کا کوئی ہنگامی منصوبہ ہے ؟ کیا سرکاری اسپتالوں میں آئی ڈراپس، اینٹی بایوٹکس، یا ماہرین موجود ہیں؟ کیا عام عوام تک مستند معلومات بروقت پہنچ رہی ہیں ؟ یہ سوال ہر حکومت کے در پر دستک دیتے ہیں اگر حکومت اس دستک کو سن لیتی ہے وہ بیماری کو دروازے پر روک سکتی ہے اگر نظر انداز کیا تو بیماری گھر کے اندر آ سکتی ہے محکمہ صحت کا کردار صرف کاغذوں میں منصوبہ بنانا نہیں ہوتا، بلکہ میدان میں اتر کر قوم کو تحفظ دینا بھی ہوتا ہے۔ آشوبِ چشم کی وبا کے دوران کئی جگہوں پر mobile eye clinics کا بندوبست کیا جاے بعض علاقوں میں ہنگامی آگاہی مہم شروع کی جاے ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوششیں کی جائیں آزاد کشمیر میں ڈاکٹروں کی اگر کمی ہے تو پاکستان سے مدد لی جاے اگر عوام کے لیے رینجرز بلائی جا سکتی ہے تو پھر عوام کے لیے ڈاکٹرز بھی بلائیں ادویات کی قلت کو ختم کریں عوام میں غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکیں آشوبِ چشم زیادہ تر اسکولوں اور بچوں میں تیزی سے پھیل سکتا ہے اسکولوں میں hygiene classes شروع کروائیں اساتذہ کو تربیت دی دیں بچوں کو احتیاطی تدابیر سکھائی جائیں ۔جب بچوں کو علم کے ساتھ صحت بھی سکھائی جائے، تب نسل محفوظ ہوتی ہے۔ماہرین کو بلا کر Live سوال و جواب کے سیشن ہونے چاہییں یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام پر عوامی سہولیات کے لیے ڈاکٹرز میسر ہونے چاہیئے وبا کے دوران کچھ پرائیویٹ کلینکس اور فارمیسیوں نے آئی ڈراپس کے دام دوگنے کر دینے ہیں کچھ نے مریضوں کو بغیر نسخے دوا دے دینی ہے جس سے نقصان ہو سکتا ہے یہ حکومت کا کام ہے کہ فارمیسیوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھے غلط دوا دینے پر سزا طے کرے مصنوعی قلت اور ذخیرہ اندوزی کو سختی سے روکے شہر میں تو پھر بھی اسپتال، دوا، اور ڈاکٹر دستیاب ہوتے ہیں۔ مگر گاوں ؟ گاؤں میں صرف دیسی مشورے ہوتے ہیں گاؤں میں علاج کی سہولیات بہت ضروری ہیں گاؤں میں موبائل eye camps کا آغاز ہونا چاہیے سرکاری health vans کو روزانہ کی بنیاد پر روانہ کیا جانا چاہیے ایک گاوں، ایک ڈاکٹر پالیسی ہونی چاہیے وبا شہر سے شروع ہو کر گاوں تک پہنچتی ہے، مگر احتیاطی تدابیر گاوں تک نہیں پہنچتیں۔ یہ فرق حکومت کو ختم کرنا ہو گا۔ آشوبِ چشم کی ہر وبا ہمیں ایک موقع دیتی ہے سیکھنے، سمجھنے، اور بہتر منصوبہ بندی کا حکومت کو چاہیے وبا کے مکمل ڈیٹا کو public کرے ہسپتالوں میں disease reporting system قائم کرے وبا کی بڑھتی صورت حال میں SOPs تیار رکھے عوام اس حکومت کا ساتھ دیتی ہے جس پر اسے اعتماد ہو اگر حکومت وقت پر سچ بولے اپنی کمزوریوں کو مانے عوامی مفاد کو ترجیح دے تو لوگ خودبخود احتیاط کریں گے ۔آشوبِ چشم صرف دوا سے ختم نہیں ہوتا، یہ شعور، منصوبہ بندی، اور قیادت سے ختم ہوتا ہے۔ آشوبِ چشم نے آنکھیں بند کیں، مگر حکومت و انتظامیہ کو آنکھیں کھولنے کا موقع دیا۔اگر اب بھی نہ جاگے تو اگلی بار بیماری نہیں اندھیرا بھی آ سکتا ہے ۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں