0

آزاد کشمیر احتجاج کیا کھویا؟ کیا پایا؟ شفقت ضیاء

آزاد کشمیر کی تاریخ کی طویل ترین ہڑتال قیمتی جانوں کے ضیاع اور اربوں روپے کے مالی اور تعلیمی نقصان کے بعد مذاکرات کی کامیابی پر اختتام پذیر ہوئی، دو سال قبل آٹے اور بجلی کی قیمتوں کی کمی کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی کی تحریک کا آغاز ہوا جسے حکومت چاہتی تو آسانی کے ساتھ بات چیت کے ذریعے حل کر سکتی تھی لیکن حکومت اسے نارمل بھی لے رہی تھی اور اپنے لیے شاید مفید بھی سمجھ رہی تھی۔ عوام کی ایک بڑی تعداد جب آٹے اور بجلی کی قیمتوں کی کمی کے لیے نکلی تو وفاقی حکومت کو صورتحال کنٹرول کرنے کے لیے 23 ارب روپے کی گرانٹ دینا پڑی آزاد کشمیر حکومت کو موقع بھی ٹھیک مل گیا اور بجلی آٹے کی قیمتوں کی کمی کا کریڈٹ بھی لینا شروع کر دیا لیکن بدقسمتی سے مذاکرات کامیابی کے باوجود اختتام تین قیمتی جانوں کے نقصان کی صورت میں نکلا۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے جہاں لوگوں کو جوڑنے کی محنت کی اور مختلف نظریات علاقوں اور برادریوں کو جوڑا وہاں موجودہ حکومت نے بھی اسے پالنے پوسنے اور جوان بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس میں وزیراعظم کے پیش نظر شاید اپنی حکومت کو بچانا بھی تھا اور سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا بھی تھا جس میں وہ کافی کامیاب رہے۔ گزشتہ آٹے بجلی کی تحریک کے دوران حکومت نے ایکشن کمیٹی کے کچھ دیگر مطالبات بھی تسلیم کیے تھے لیکن سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا وقت گزرتا رہا جس کا ایکشن کمیٹی نے درست استعمال کیا لوگوں کو جوڑتے رہے مطالبات میں اضافہ بھی کیا اور مسلسل پروگرامات کرتے رہے جس میں انہیں اوورسیز کشمیریوں کا بھرپور تعاون رہا یوں 29 ستمبرکے احتجاج کی کال دی گی لیکن حکومت آزاد کشمیر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے میں مکمل ناکام رہی بلکہ اس کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی شاید ایک بار پھر وفاقی حکومت سے گرانٹ لینے کے لیے کسی ایسے ہی عوامی پریشر کی ضرورت محسوس کر رہی تھی یا صلاحیتوں سے عاری ہے یا دونوں باتیں موجود تھیں بہرحال آزاد کشمیر ایک سیاسی اور جمہوری حکومت سے خالی نظر آیا ایسے میں ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان شہباز شریف آگے بڑھے اور انہوں نے وفاقی وزراء کو مظفرآباد بھیجا جنہوں نے ایکشن کمیٹی سے مذاکرات کیے اور ان کے تمام مطالبات کو تسلیم کیا سوائے دو مطالبات کے جو آئینی ترمیم کے بغیر حل ہونا ممکن نہ تھے۔ یہ سمجھنے کے باوجود کہ یہ دو مطالبات آئینی ترمیم کے بغیر حل نہیں ہو سکتے ایکشن کمیٹی کی قیادت کی انا اور ضد کے ساتھ باہر بیٹھے ایسے لوگ جو امن و امان کے بجائے احتجاج اور خون خرابے کے حق میں تھے ان کا پریشر اس طرح کا تھا کہ اصل ایشو ہی یہ دو ہیں یہ حل نہیں ہوں گے تو باقی مطالبات پورے ہو جانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے
یوں بروقت وفاقی حکومت کی کوششوں پر پانی پھیر دیا گیا آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کی قیادت تو پہلے ہی مکمل ناکام ہو چکی تھی، 29 ستمبر کوآزاد کشمیر بھر میں بھرپور ہڑتال شروع ہوئی اور عوام کی ایک بڑی تعداد سڑکوں پر آئی۔ ایک بار پھر وزیراعظم پاکستان آگے بڑھے ممبران کی تعداد میں اضافہ کیا مسلم لیگ ن کے ساتھ پاکستان پیپلز پارٹی کے انتہائی سنجیدہ لوگوں کو شامل کر کے مظفرآباد بھیجا اس دوران کئی ناخوشگوار واقعات بھی پیش آ چکے تھے کئی قیمتی جانوں کا نقصان بھی ہو چکا ہندوستان اس صورتحال سے بے حد خوش اور خوب پروپیگنڈا کرتا رہا آزاد کشمیر میں نیٹ مکمل طور پر بند ہونے کی وجہ سے جہاں عوام کو مشکلات پیش آ رہی تھی وہاں صحافت کا گلا بھی بند کر دیا گیا جس کی بھی اس سے پہلے کوئی آزاد کشمیر میں مثال نہیں ملتی تاہم ہندوستانی میڈیا نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور مسلسل پراپیگنڈا کرتا رہا اور بیرون ملک سے بھی پاکستان کے خلاف کافی کام ہوتا رہا۔ آزاد کشمیر کے امن کی دشمن قوتیں آخر ناکام ہوئی حکومت پاکستان کی کوشش رنگ لائی اور مذاکرات کامیاب ہو گئے گو کہ کافی بڑے نقصان کے بعد کامیابی ملی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق جس نے ایک شخص کو قتل کیا گویا اس نے ساری انسانیت کو قتل کر دیا کئی جانوں کا قتل اور سینکڑوں لوگوں کا زخمی ہونا انتہائی افسوسناک اور دکھ دہ عمل ہے کاش ہڑتال سے پہلے مذاکرات کامیاب ہو جاتے جو مطالبات تسلیم کر لیے گئے تھے ان پر اتفاق کر لیا جاتا،بعد میں بھی صرف کمیٹی بنانے تک اتفاق ہوا یہ کمیٹی ہی بنانا کافی تھا تو پہلے ہی ایسا کر دیا جاتا تو قیمتی انسانی جانیں بھی نہ جاتی اور اتنا بڑا نقصان بھی نہ ہوتا عام غریب آدمی جو دن کو کماتا ہے تو شام کو اس کا چولہا جلتا ہے اس کے ساتھ بہت ظلم ہوا
اس میں کوئی شک نہیں کہ عوامی تحریک کے نتیجے میں بہت سے مسائل حل ہوئے اور یہ بھی واضح ہوا کہ محافظ اور قابض میں فرق کیا ہے۔ گزشتہ سال بھی عوام سڑکوں پر آئے تو پاکستان آگے بڑھا اور اس بار بھی حکومت پاکستان نے اربوں روپے اپنے ذمے لے کر اس مشکل صورتحال سے نکالا ہے۔ دوآئینی معاملات جن کے لیے کمیٹی بنائی گئی ہے ان کی سفارشات کو سامنے رکھتے ہوئے اسمبلی قانون سازی کرے گی، وزرا کی تعداد جوکم کی گئی ہے تیرہویں ترمیم میں 30 فیصد تک رکھنے کا کہا گیا تھا جو 15 سے کم وزیر بنتے ہیں اس شق کو موجودہ حکومت نے تبدیل کیا اور وزراء کی فوج بھرتی کی۔ آئینی کمیٹی میں حکومت پاکستان حکومت آزاد کشمیر اور ایکشن کمیٹی کے دو دو ماہرین ہوں گے امید کی جا سکتی ہے کہ اس سے جو سفارشات سامنے آئیں گی وہ اسمبلی سے منظوری کے بعد عوامی مفاد میں ہوں گی۔
جمہوری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے عوام کا خیال نہ رکھنے کا نتیجہ جس طرح سے سامنے آیا ہے اس کا سبق سیکھا جائے گا یا نہیں؟ چند مسائل حل باقی بھی حل ہو جائیں گے لیکن کیا اسی طرح ریاست چلے گی؟ یا نظام تبدیل کریں
گے۔ اس نظام کو مکمل طور پر تبدیل کیے بغیر اب چارہ نہیں رہا عدل و انصاف والا اسلام کا نظام موجود ہے اس کا نفاذ ہی تمام مشکلات سے نکال سکتا ہے سیاسی جماعتوں کو سمجھنے اور سیکھنے کے لیے بہت کچھ سامنے آگیا ہے جمہوری انداز میں آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے نوجوان نسل کو روزگار دینے اور اچھی تعلیم و تربیت دیے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے اب وعدے، دعوے اور اعلانات نہیں عملا کچھ کرنا ہوگا ورنہ دشمن ہماری آنے والی نسلوں سے امن چھین لے گا تو نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔عوامی قوت رکھنے والی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا مرنے، مارنے اور گالی کے بجائے امن، محبت کا درس نوجوان نسل کو دینا ہی سب کے مفاد میں ہو گا،بہت کچھ کھونے اور پانے کے بعد ہم غلطیوں سے سکیھ لیں اور آزادکشمیر کے خوبصورت خطہ کو امن محبت کا گوارہ بنانے کا عزم کر لیں تو یہ حقیقی کامیابی ہو گی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں