ڈیلی پرل ویو.دُنیا کا ہر اِنسان اپنی زِندگی کے کِسی نہ کِسی موڑ پر مایوسی، ناکامی اور دِل گرفتگی کے اندھیروں سے ضرور گزرتا ہے،یہ وہ لمحے ہوتے ہیں جب اُمید کی کِرن مدھم پڑ جاتی ہے، خوابوں کی روشنی ماند ہو جاتی ہے، ایسے اوقات میں اِنسان خود کو تنہا، بے بَس اور بے وزن محسوس کر تا ہے، گویا پوری دُنیا اُس کے خِلاف ہو، کچھ لوگ اِن لمحوں میں ہمت ہار دیتے ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی راستہ باقی نہیں کوئی دَستِ شِفااُن کے زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں۔ یہی سوچ اُنہیں اُس خطرناک دہانے تک لے جاتی ہے جہاں زِندگی کی ڈور خود اپنے ہاتھوں سے کاٹ دینے کا خیال جنم لیتا ہے۔ مگر دراصل یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اِنسان کو اپنی اَصل قوت پہچاننے کی ضرورت ہوتی ہے۔صبر،حوصلہ،برداشت اور یقین۔ کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں جنہیں بیان کرنے کی ہمت نہیں ہوتی، نہ اِس لئے کہ اِلفاظ کم پڑ جاتے ہیں بلکہ اِس لئے کہ درد کی گہرائی کو لفظ چھو نہیں پاتے، انسان ڈرتا ہے کہ اگر اُس نے اپنی ٹوٹی ہوئی کہانی کِسی کے سامنے رکھی تو شاید وہ کہانی سمجھنے کے بجائے پَرکھی جائے گی، تولی جائے گی یا ہمدردی کے بجائے ہلکی سی ترس بھری نظر اُس پر ڈال دی جائے گی، یوں اِنسان اپنی تکلیفوں کو خاموشی کی چادر میں لپیٹ لیتا ہے، وہ ہنستا ہے، بولتا ہے، کام کر تا ہے مگر اندر ہی اندر ایک خَلا پھیلتا جاتا ہے جو روح کو آہستہ آہستہ کھا جاتا ہے، یہ وہ خاموش اذیت ہے جو چیخ نہیں سکتی مگر دِل کے اندر شور مچاتی ہے۔ اصل میں اِنسان جتنا ظاہری طور پر بہادر اور نِڈر دکھائی دیتا ہے حقیقت میں اُتنا ہی اندر سے نازک اور کمزور ہوتا ہے،یہی تضاد اُس کی فِطرت کا سب سے خوبصورت اور سب سے پیچیدہ پہلو ہے، وہ پہاڑوں کو کاٹنے کا حوصلہ رکھتا ہے مگر ایک چھوٹے سے لفظ، ایک معمولی سی ٹھوکر یا کِسی ناپسندیدہ واقعے سے ٹوٹ بھی جاتا ہے، مایوسی اور ناکامی اِنسان کے دِل پر اِس تیزی سے غالِب آتی ہے جیسے بارِش کے پہلے قطرے کے ساتھ زمین کی خوشبو ہوا میں پھیل جاتی ہے، اِنسان ہر بڑے دُکھ کا مقابلہ تو کر لیتا ہے مگر چھوٹی چھوٹی باتوں پر بکھر جاتا ہے۔ ہم آج جس دور میں رہتے ہیں یہ ایک ایسا دور ہے جہاں ہر کوئی اپنی مرضی، اپنی سوچ اور اپنے دائرے میں قید ہے، یہ خود مختاری بظاہر طاقت کی عِلامت ہے مگر دراصل یہی اِنسان کو سب سے زیادہ تنہا کر رہی ہے، ہم ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے بھی دور ہیں، اِنسان کی اصل کمزوری اُس کی ناکامی نہیں بلکہ اُس کی حساس روح ہے جو ہر چھوٹی بات کو محسوس کرتی ہے، ہر دُکھ کو دِل میں سمیٹ لیتی ہے اور پھر مسکراہٹ کے پیچھے اپنے زخم چھپا لیتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں ایسے حالات و واقعات سے تقریباََ ہر اِنسان کا سامنا ہوتا ہے جو اُسے وقتی طور پر بے چین، مضطرب یا مایوس کر دیتے ہیں اور اِنسان اپنے ہی خیالات کے جال میں اُلجھ جاتا اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے یہ کیفیت کِسی بڑے سانحے یا گہری ناکامی کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ معمولی سی بات، کِسی خواہش کا ادھورا رہ جانا اِنسان کے سُکون کو چھین لیتی ہے۔ اِنسان کی فطرت ہی کچھ ایسی ہے کہ وہ ہمیشہ کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے اور حاصل ہونے کے بعد کچھ اور چاہنے لگتا ہے، یہی سِلسلہ خواہشات کا لا متناہی کارواں ہے جو کبھی رُکنے کا نام نہیں لیتا۔ اِنسان کی خواہشات اور توقعات لا محدود ہیں مگر اُس کی قوتِ برداشت محدود، یہی تضاد اُس کی مایوسی کی بنیاد بنتا ہے۔ دنیا میں ہر اِنسان ذہنی دباؤ کا شکار تو ہوتا ہے مگر سب اُسے ایک ہی انداز میں نہیں جھیلتے، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مایوسی کے طوفان میں ڈوبنے کے بجائے تیرنا سیکھ لیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیں زِندگی نے اِبتداء ہی سے آزمائشوں کا عادی بنا دیا ہوتا ہے،اُن کے بچپن میں چھوٹی چھوٹی ناکامیاں، چھوٹے چھوٹے دُکھ اور نامکمل خواہشیں شامِل رہی ہوتی ہیں،انہی تجربات نے اُن کے اندر برداشت، صبر اور حوصلے کی وہ قوت پیدا کی ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ اُن کی ڈھال بن جاتی ہے۔یہی لوگ جانتے ہیں کہ زِندگی اُن آنسوؤں کے باوجود خوبصورت ہے جو کبھی کبھار بہہ جاتے ہیں، یہ وہ اِنسان ہیں جو شِکست سے سبق لیتے ہیں اور پھر اُسی زخم کو روشنی میں بدل دیتے ہیں، اُن کے نزدیک زِندگی مسلسل ایک جد وجہد ہے، ایک سفر جس میں ہر گِرنا، اٹھنے کی ہمت رکھتا ہے۔ حوصلہ ہی وہ چِراغ ہے جو مایوسی کے اندھیروں میں راستہ دِکھاتا ہے، جب اِنسان خود پر یقین کر لے تو کوئی ناکامی اُسے دیر تک شِکست نہیں دے سکتی۔ بچپن سے ہی جو لوگ مایوسی اور ناکامی کا سامنا کرنا، اُن سے سیکھنا اور مات دینا جان لیتے ہیں وہی دراصل زِندگی کے اصل کامیاب اِنسان بنتے ہیں ایسے اَفراد کو زمانے کے نشیب و فراز ہراساں نہیں کرتے کیونکہ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ زِندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا، جب یہ لوگ جوانی اور بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں تو مایوسی اور ناکامی جیسے اِلفاظ اُن کے لئے بے معنی ہو جاتے ہیں وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اگر اِنسان اِن اِلفاظ کے حِصار میں قید ہو جائے تو وہ اپنی تخلیق کردہ زنجیروں میں جکڑ جاتا ہے ایسے افراد کا فلسفہئ حیات واضح ہوتا ہے،ہر شِکست، ایک نئے عزم کا آغاز ہے۔ اِس کے بر عکس وہ لوگ جو مایوسی سے نمٹنے کا ہُنر نہیں جانتے ذرا سی ٹھوکر پر بکھر جاتے ہیں، وہ اپنی ناکامیوں کو انجام سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ انجام تو تب ہوتا ہے جب اِنسان کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے،یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد زِندگی کے موڑ پر تکلیف، اُلجھن اور پچھتاوے کا سامنا کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اِنسان کی زِندگی دراصل ایک جنگ ہی نہیں بلکہ ایک آزمائش ہے، یہ وہ اِمتحان ہے جس میں کوئی جیت یا ہار نہیں بلکہ صرف سیکھنے، صبر کرنے اور بہتر بننے کا موقع ہے۔ اِنسان کو اپنی ذات میں اتنی طاقت، برداشت اور حوصلہ پیدا کرنا چاہئے کہ وہ حالات کے سامنے جھکنے کی بجائے اُن کا مقابلہ کرے، مایوسی، ناکامی اور بے اِطمینانی یہ سب زِندگی کے ساتھ چلنے والے سائے ہیں، اِ ن سے بھاگنے کی بجائے اِنہیں سمجھنا اور قُبول کرنا ہی اصل دانائی ہے۔ مایوسی کو قُبول کرنا ہی دراصل اِس نجات کی پہلی سیڑھی ہے جب اِنسان یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ دُکھ اور ناکامی زِندگی کا حصہ ہیں تو وہ اُن سے ڈرنا چھوڑ دیتا ہے اور یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب اُس کے اندر خود اِعتمادی جنم لیتی ہے، اِنسان اپنی تمام قوتوں کو بروئے کار لا کر نئے عہدو پیمان، نئی سوچ اور جذبے کے ساتھ زِندگی کو اَز سرِ نو ترتیب دے سکتا ہے۔ ہر اِنسان مشکل حالات یا مسائل کو آسانی سے حل نہیں کر سکتا،یہ مسائل کبھی خاندانی اِختلافات کی صورت میں آتے ہیں،کبھی روزگار اور معاشی دباؤ کی شکل میں، مگر اِن سب کا بہترین عِلاج گہرائی سے سوچنے، خود شناسی اور مکالمے میں پوشیدہ ہے، جب اِنسان اپنے مسئلے سے بھاگنے کے بجائے اُسے سمجھنے لگتا ہے،جب وہ دوسروں سے بات چیت کرتا ہے اور خود کو ایک خوشگوار اور مثبت ماحول میں رکھتا ہے تو اُس کے اندر نئی توانائی جنم لیتی ہے، یہ توانائی ہی خود اِعتمادی میں ڈھل کر اُسے تمام مشکلات کا سامنا کرنے کے قابِل بناتی ہے۔ اِنسان جب دنیا میں قدم رکھتا ہے تو گویا ایک طویل اور پُر پیچ سفر کا آغاز کرتا ہے، پیدائش کے لمحے سے ہی اُس کی زندگی ایک ایسی جد وجہد بن جاتی ہے جو آزمائشوں اور اِمتحانوں سے بھری ہوتی ہے، ہر دِن،ہر لمحہ ایک نئی آزمائش کی گھڑی لے کر آتا ہے، کبھی صبر کا اِمتحان، کبھی شُکر کا اور کبھی اِیمان کا۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے۔ ”اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے، اور مال، جان اور پھلوں کی کمی سے۔اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔“ (سورۃ البقرہ:۵۵۱)
یہی صبر و حوصلہ اِنسان کا زیور ہے، جو بندہ مشکلات میں بھی اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، وہی دراصل کامیاب کہلاتا ہے۔ زِندگی کی جنگ دراصل مومن کے عزم و یقین کی جنگ ہے ایک ایسی جنگ جس میں تلوار کی جگہ صبر ہے اور ڈھال کی جگہ دُعا۔ جو اِنسان اِن آزمائشوں سے گزر کر بھی اپنے رَب پر یقین رکھتا ہے وہ دراصل کامیابی کے کِنارے پہنچ جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اُنہی بَندوں کو آزماتا ہے جنہیں وہ بلند مقام دینا چاہتا ہے لہٰذا، اے اِنسان!ہمت نہ ہار، کیونکہ زِندگی کا ہر موڑ ایک اِمتحان ہے اور ہر امتحان کے پیچھے رَب کی حِکمت پوشیدہ ہے۔صبر کر، دُعا کر اور یقین رکھ کہ جو تیرے نصیب میں لکھا ہے، وہ تجھے ضرور ملے گا، اُس وقت، جب تیرا ایمان ثابت ہو جائے گا۔
0