0

جامعہ کشمیر کے مالی مسائل — ایک فیصلہ کن لمحہ، تحریر محمد برہان بخاری

ڈیلی پرل ویو.جامعہ کشمیر ساڑھے چار دہائیوں سے علم و تحقیق کا وہ چراغ ہے جس نے نہ صرف آزاد کشمیر بلکہ پاکستان کے لاکھوں نوجوانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا۔ مگر یہ چراغ اب تیز ہواﺅں میں لرز رہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے حکومتی عدم توجہی، نئے قائم شدہ متعدد یونیورسٹیوں اور غیر متوازن فیصلہ سازی کے باعث جامعہ کشمیر ایک سنگین مالی بحران کی طرف دھکیلا جا چکا ہے۔

نئی جامعات کے قیام سے جامعہ کشمیر کے اثاثے بھی تقسیم ہوئے۔ میرپور، کوٹلی اور راولاکوٹ کے کیمپس الگ اداروں میں تبدیل ہوئے، مگر جامعہ کشمیر کو اس تقسیم سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ طلبہ کی تعداد گھٹی، فیسوں کی آمدن کم ہوئی، ذمہ داریاں برقرار رہیں۔ آج یونیورسٹی اپنی آپریشنل کاسٹ بھی پوری کرنے کے قابل نہیں رہی اور تنخواہوں میں تاخیر معمول بن چکی ہے۔

مہنگائی نے صورتحال مزید سنگین بنا دی ہے۔ایچ ای سی کی گرانٹ میں تقریباً 6 سال اضافہ نہ ہوا اس دوران ڈالر سو روپے سے بڑھ کر دو سو اسی تک جا پہنچا، یوٹیلٹی اخراجات دوگنے سے بھی ذائد ہو گئے،یہاں ایک اور سنگین حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ جامعہ کشمیر کی حکومتی گرانٹ آج بھی وہی 35 لاکھ روپے سالانہ ہے جو 1990ء کی دہائی میں سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر ممتاز حسین راٹھور نے مقرر کی تھی۔ پاکستان کی جامعات اربوں میں گرانٹس لے رہی ہیں جبکہ آزاد کشمیر کی سب سے بڑی مادرِ علمی علامتی مدد پر گزارا کر رہی ہے۔

مہنگائی کئی سو گنا بڑھ گئی، ڈالر مسلسل اوپر گیا، تحقیقی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ ہوا، مگر اس بنیادی گرانٹ کو وہیں جمود کا شکار رکھا گیا، جس کے باعث جامعہ کشمیر کی مالی مشکلات بڑھتی گئیں۔

سوال یہ ہے: اس صورتحال سے نکلنے کا راستہ کیا ہے؟

میری رائے میں جامعہ کشمیر چند عملی اقدامات کے ذریعے اپنی مالی بنیادوں کو مضبوط کر سکتا ہے:

اوّل:
جدید دور کے تقاضوں کے مطابق جیسے روزگار سے وابستہ جدید پروگرامز فوری طور پر شروع کیے جائیں تاکہ داخلے بڑھیں اور آمدن میں اضافہ ہو۔

دوم:
افیلی ایٹڈ کالجز کا اعتماد بحال کیا جائے اور وہ کالجز واپس لائے جائیں جو دیگر جامعات سے الحاق کر چکے ہیں۔

سوم:
مظفرآباد کا سٹی کیمپس جامعہ کا قیمتی اثاثہ ہے۔ وہاں کمرشل مارکیٹس، پارکنگ پلازہ، آڈیٹوریمز، کو ورکنگ اسپیس اور رینٹل پروجیکٹس قائم کیے جائیں۔

چہارم:
جامعہ کشمیر اسکول سسٹم کا قیام فوری عمل میں لایا جائے۔ اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی طرح اسکول نیٹ ورک مستقل اور بھاری آمدن کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

پنجم:
ملٹی پرپز ہالز تیار کر کے کرایہ پر دیے جائیں۔ یہ ایک مضبوط اور جاری رہنے والی آمدن کا راستہ ہے۔

ششم:
چھتر کلاس میں پیٹرول پمپ کا قیام بھی قابلِ عمل تجویز ہے جو طویل مدتی آمدن فراہم کرے گا۔

لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ جامعہ کشمیر حکومتی سرپرستی کے بغیر کھڑا نہیں ہو سکتا۔

یہ آزاد کشمیر کی موجودہ قیادت، بالخصوص نامزد وزیر اعظم جناب فیصل ممتاز راٹھور کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ آج جب وہ حلف اٹھانے جا رہے ہیں تو ان کے سامنے ایک تاریخی موقع ہے کہ وہ اپنے والد، سابق وزیر اعظم ممتاز حسین راٹھور کے ادھورے مشن کو مکمل کریں۔ ممتاز حسین راٹھور کا نام آج بھی جامعہ کشمیر کی در و دیوار پر روشن ہے اور ملازمین کے دلوں میں ان سے احترام کا رشتہ قائم ہے۔

اگر جناب فیصل ممتاز راٹھور صاحب جامعہ کشمیر کی گرانٹ میں نمایاں اضافہ کر دیتے ہیں، اسے مالی مضبوطی کی راہ پر ڈال دیتے ہیں، اور اس مادرِ علمی کو زبوں حالی سے نکال لیتے ہیں تو یہ صرف ایک حکومتی اقدام نہیں بلکہ ایک تاریخی ورثے کی حفاظت بھی ہو گی۔ امید ہے کہ فیصل ممتاز راٹھور اپنے والد کی طرز پر علم دوستی کا ثبوت دیں گے۔
جامعہ کشمیر کو بچانا دراصل آزاد کشمیر کے تعلیمی مستقبل کو بچانا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں