0

بیرون ِ ممالک جانے والوں کی پریشانی، تحریر ، ایم سرور صدیقی

ڈیلی پرل ویو، کراچی ائیرپورٹ پر ایک نوجوان دھاڑیں مار مار کر رو رہاتھا اس کے اہل ِ خانہ بھی انتہائی پریشان نظر آرہے تھے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ مکمل ویزا اور سفری دستاویزہونے کے باوجود اسے جہاز سے آف لوڈ کردیا گیاہے۔ حیدرآباد سندھ کے 25 سالہ محمد اصغر (فرضی نام) نے سعودی عرب میں موجود اپنے رشتہ داروں کی مدد سے ایک کمپنی میں ملازمت اور ورک ویزا حاصل کیا تھا۔ اس نے ہچکیوں کے درمیان بتایا کہ ”میں نے تین لاکھ روپے قرض لے کر ٹکٹ اور دیگر اخراجات کئے کمپنی نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ابتدائی چھ ماہ دو ہزار ریال ملیں گے اور کام بہتر ہوا تو یہ تین ہزار ریال تک پہنچ جائیں گے۔“ مگر کراچی ایئرپورٹ پہنچنے پر امیگریشن حکام نے ان کے مطابق انھیں سفر کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور صرف اتنا کہا:“آپ کے کاغذات مکمل نہیں ہیں۔”نوجوان اصغر کا کہنا ہے کہ ان سے نہ تفصیل پوچھی گئی اور نہ ہی غلطی بتائی گئی۔ وہ کہتے ہیں کہ: ”میں بہت رویا، بہت درخواست کی، مگر کسی نے نہ سنی۔ تین لاکھ کا قرض الگ، اور مستقبل کی امید بھی ٹوٹ گئی۔“ لاہور کے علامہ اقبالؒ ائیر پورٹ پر ایک اور نوجوان کے بین نہیں دیکھے جارہے تھے وہ آنکھوں میں حسین مستقبل کے خواب سجائے جب اندر جانے کے لئے قطار میں دھڑکتے دل کے ساتھ باری کا انتظار کررہاتھا کہ اسے بھی سفر سے محروم کردیا گیاانتظامیہ نے اسے کوئی معقول وجہ بتانے سے انکارکردیا۔ سرگودھا کے 35 سالہ چوہدری حسیب کا معاملہ بھی مختلف نہیں اسے لاہور اور کراچی دونوں سے واپس آناپڑا اور اس کے خواببھی چکنا چور ہوگئے چوہدری حسیب کو بھی اسی طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا کہنا ہے کہ مقامی ٹھیکیدار نے دبئی میں انھیں شیٹرنگ کے کام پر بلایا تھا اجرت میں ساٹھ درہم روزانہ سے آغاز اور آگے اضافہ کی یقین دہانی کروائی گئی تھی ویزہ ملتے ہی انھوں نے قرض لے کر ٹکٹ خریدا مگر لاہور ایئرپورٹ پر روک لیا گیا۔ ”مجھے بتایا گیا کہ میرے کاغذات ٹھیک ہیں مگر وجہ کوئی نہیں دی گئی۔ اب مجھ پر اتنا قرض ہے جو پاکستان میں کام کر کے بھی شاید نہ اتر سکے۔“
ٹھیکیدار کے مطابق وہی کاغذات کئی دیگر لوگوں کے استعمال میں آئے اور سب آرام سے دبئی پہنچ گئے۔ جھنگ کے نوشاد اختر (فرضی نام) کو بھی کراچی ایئرپورٹ پر روکا گیا۔ وہ بتاتے ہیں:
”میں نے کراچی سے ٹکٹ اس لئے لیا تھا کہ لاہور سے بہت مہنگا تھا۔ لیکن امیگریشن حکام نے صرف یہی پوچھا کہ لاہور کی بجائے کراچی سے کیوں سفر کر رہے ہو؟“
ان کے مطابق وہاں مزید چار پانچ افراد موجود تھے جنہیں اسی قسم کے سوالات کا سامنا تھا خاص طور پر پنجاب کے رہائشیوں کو عجیب عجیب سالات کا سامنا کرناپڑرہاہے نوشاد اختر کا بورڈنگ کارڈ بھی بن چکا تھا، مگر آف لوڈ کیے جانے کے باعث **ساٹھ ہزار روپے کا ٹکٹ ضائع ہوگیا۔ یہ فقط چند افرادکی جگ بیتیاں ہیں جس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ افسروں کی من مانی ہے کہ وہ بیرون ممالک جانے والوں سے جیسا سلوک کرناچاہیں کرسکتے ہیں یعنی داد نہ فریاد اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان سے بیرون ممالک جانے اور وطن واپس آنے والوں سے ہتک آمیز رویہ معمول بن چکا ہے بیرون ممالک سے آنے والوں کو ائیر پورٹ پر تعینات قلی سے لے کر افسروں تک حتی ٰ کو ٹیکسی والے بھی“ موٹی مرغی“ سمجھ کر ٹریٹ کرتے ہیں۔
گذشتہ تین چار سالوں سے بیرون ممالک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ائیر پورٹس پر ایسے لگتاہے جیسے یہ ملک خالی ہورہاہو اس کے باوجود حکمرانوں کو مطلق احساسا نہیں کہ اس صورت ِ حال کو کیسے کنٹرول کیا جائے جب ملک میں مہنگائی،بیروزگاری کے ساتھ ساتھ کاروبار ی وسائل نہ ہونے کے برابر ہوں تو لوگ بیرون ملک نہ جائیں تو پھر کیا کریں اگر کوئی پاکستان میں کاروبار کرنے کے لئے سوچتاہے تو FBR،فوڈ اتھارٹی، محکمہ ماحولیات، پرائس کنٹرول، لیبر ڈیپارنمنٹ سمیت درجنوں قسم کے ادارے اور محکمے چڑھ دوڑتے ہیں کاروباری نقصانات کاالگ اندیشہ رہتاہے جس سے آجر بدظن ہوکر گھر بیٹھ جاتاہے اس تناظرمیں ورک ویزا ہولڈرز کو سفری دستاویزات کے باوجود ایئرپورٹس پر روکنے کے واقعات کا رونما ہونا خطرے کی گھنٹی ہے اس ضمن میں اصل کہانی، وجوہات اور حکام کا مؤقف کیاہے یہ بھی جاننے اور سمجھنے کیلئے ضروری ہے گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں ایسے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس پر امیگریشن حکام نے ایسے مسافروں کو بیرونِ ملک روانگی سے روک دیا جن کے پاسپورٹس پر باقاعدہ ورک ویزے موجود تھے۔ یہ معاملات نہ صرف محنت کش طبقات میں بے چینی کا باعث بنے بلکہ بیرونِ ملک جانے کی تیاری کرنے والے ہزاروں نوجوانوں کے لئے بھی تشنہ سوالات چھوڑ گئے ہیں۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (FIA) کے مطابق متعدد افراد کو اس خدشے کے پیش نظر روکا گیا کہ کہیں وہ انسانی سمگلنگ کا شکار نہ ہو جائیں FIA کے ڈائریکٹر جنرل رفعت مختار نے اس حوالے سے خبروں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے ہم مکمل تحقیقات کر رہے ہیں اگر کسی اہلکار نے اختیارات سے تجاوزکیاہے یا اس کا غلط استعمال سامنے آیا تو کارروائی ہوگی بیرون ِ ممالک جانے والوں پر کوئی نیا ضابطہ یا اضافی شرط نافذ نہیں کی گئی ڈی جیFIA کاکہناہے کہ کراچی اور لاہور سے ابتدائی رپورٹس موصول ہوئی ہیں کہ کچھ مسافروں کو مکمل سفری دستاویزات ہونے کے باوجود روکا گیا، جس کی اب تحقیقات جاری ہیں۔ پاکستان کے قوانین کے مطابق مختلف شکایات کی بنیاد پر مسافروں کو روکا جاسکتاہے مثلاً انسانی اسمگلنگ کا خدشہ، سفری دستاویز میں ٹمپرنگ، کوائف میں بے ضابطگیاں، دستاویزات کی غیر موجودگی یا غلط معلومات،بعض افراد کا اہم سرکاری ریکارڈ (IBMS) میں مطلوب ہونا،سرکاری ملازمین کا NOC نہ ہونا،وزٹ ویزا ہولڈرز کے پاس مالی اخراجات یا ہوٹل بکنگ کا ثبوت نہ ہونا شامل ہے اکثریت کو وضاحت سے مظمئن ہونے کے بعد جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے لیکن کچھ کیسز اینٹی ہیومن سمگلنگ سرکل کے حوالے کئے گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ پنجاب کے افراد کا کراچی سے سفرکی اجازت نہ دینے کے پیچھے کیا محرکات ہوسکتے ہیں یہ رشوت کے حصول کے لئے ایسا ہوسکتاہے بدانتظامی؟ ہے یاپھر واقعی حکومت کا کیا دھرا ہے کہ وہ بیرون ممالک جانے والوں کی تعداد کنٹرول کرنا چاہتی ہو۔ جبکہ پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن کے سابق وائس چیئرمین محمد عدنان پراچہ کاایک بیان بھی اہمیت کا حامل ہے کہ1. بہت سے مسافر اپنے صوبے کی بجائے سستے ٹکٹ کی تلاش میں دوسرے صوبوں کے ایئرپورٹ سے روانہ ہوتے ہیں۔ یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں اور نہ اس میں کوئی غیر قانونی یا مشکوک بات نہیں، لیکن کچھ حکام اسے ’شک‘ کی بنیاد بنا لیتے ہیں۔ 2. کچھ مسافروں سے تجربے کے سرٹیفیکیٹس مانگے جا رہے ہی جو امیگریشن حکام کا دائرہ اختیار ہی نہیں۔ ایسا کرنے والے حکام اختیارات سے تجاوز کررہے ہیں پلمبر، الیکٹریشن، راج مستری وغیرہ کے مقامی تجربے کے سرٹیفیکیٹ عام طور پر موجود نہیں ہوتے۔ ”جب ورک ویزا درست ہو، پروٹیکٹر لگا ہو، اور ٹکٹ موجود ہو تو امیگریشن کسی کو نہیں روک سکتی۔ اس لئے ضروری ہے کہ‘ حکومتی سطح پر ردِعمل اور مستقبل کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں یہ خوش آئندہے کہ وزیر برائے اوورسیز پاکستانی چوہدری سالک حسین نے متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ مستند دستاویزات رکھنے والے کسی بھی ورکر کو غیر ضروری طور پر نہ روکا جائے ایسی شکایات ناقابلِ قبول ہیں اس لئے تمام معاملے کی سخت نگرانی کی جائے۔
مسافروں کی سہولت اور پریشانی سے بچنے کے لئے ایف آئی اے FIAنے ایک ڈیجیٹل امیگریشن سسٹم متعارف کروانے کا بھی اعلان کیا ہے جس کے ذریعے مسافر اپنے کاغذات روانگی سے پہلے ہی آن لائن چیک کر سکیں گے۔ اس سے بدنظمی اور ایئرپورٹ پر غیر ضروری رکاوٹوں میں کمی متوقع ہے۔ سعودی عرب کے ورک ویزا کے نئے تقاضوں کو پیش ِ نظررکھیں کیونکہ سعودی عرب اب صرف ویزا پر انحصار نہیں کرتا بلکہ کئی اضافی تقاضے لازمی ہیں: جن میں 1. پروٹیکٹر اسٹیمپ (BEOE) یہ ورکر کے قانونی تحفظ کے لئے ضروری ہے اس کے بغیر بعض اوقات ایئرپورٹ سے جانے کی اجازت نہیں ملتی۔
2. تجربے یا متعلقہ تعلیم کے سرٹیفیکیٹس: سعودی امیگریشن اور پاکستانی حکام دونوں ان کی جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔
3. کمپنی کے ساتھ مستند معاہدہ: سعودی حکومت نے کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ ویزا کے ساتھ مکمل لیگل معاہدہ بھی ہو۔
4. آزاد ویزے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے
جدہ میں مقیم ایک صحافی نورالحسن کے مطابق سعودی عرب میں آزاد ویزا نام کی کوئی قانونی چیز نہیں۔ یہ صرف دھوکہ اور غیر قانونی بھرتی کا ذریعہ بنتی ہے۔“
5. بلاک ویزا کوٹے کی معطلی: مئی سے پاکستان سمیت کچھ ممالک کے لیے بلاک ویزا کوٹے عارضی طور پر معطل رہے، جس سے پروسیسنگ متاثر ہوئی۔ محنت کش طبقہ دباؤ میں، نظام کی اصلاح ناگزیر ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ انسانی سمگلنگ جیسے خطرات موجود ہیں، مگر ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ قانونی ورک ویزا رکھنے والے بہت سے افراد غیر واضح وجوہات پر ایئرپورٹس پر روکے جا رہے ہیں۔ یہ صورتحال: مالی طور پر کمزور خاندانوں پر بھاری بوجھ ہے جس سے متاثرہ خاندانوں کا نہ صرف لاکھوں روپے کے نقصان ہورہاہے بلکہ انہیں ذہنی اور جذباتی تکلیف کابھی سامنا کرناپڑرہاہے اس سے بیرونِ ملک روزگار کے منصوبوں میں خلل پیداہوکر مالی سنگین مشکلات پیدا ہو رہی ہے۔ حکومتی اداروں کا مؤقف ہے کہ اصلاحات underway ہیں، لیکن اصل ضرورت یہ ہے کہ: امیگریشن حکام کو واضح رہنما اصول دیئے جائیں، قانونی دستاویزات رکھنے والوں کو بلاوجہ نہ روکا جائے تاکہ انہیں مزید کوفت نہ ہو، مسافروں کو شفاف طریقے سے بتایا جائے کہ مسئلہ کیا ہے؟
انسانی سمگلنگ کے نام پر جائز مسافروں کو پریشان نہ کیا جائے،بیرونِ ملک جانے والے پاکستانی ملک کا اثاثہ ہیں ان کے لئے رکاوٹیں نہیں، سہولتیں پیدا کی جانی چاہییں حکومت کو بھی چاہیے جن مسافروں کو بلاوجہ آف لوڈکیا گیاہے ان کے نقصان کاازالہ کیا جائے تما م ائیرلائنزکو پابندکیا جائے کہ ایسے مسافروں کو متبادل ٹکٹ دئیے جائیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں