ڈیلی پرل ویو.انسان جب زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوتا ہے تو واقعی وہ انسان ہوتا ہے، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ حضرات کی قدروقیمت رہی ہے؛ تعلیم کے بغیر ترقی و عروج کی خواہش، بے بنیاد خواہش ہے، انسان کی نافعیت کے لیے، دینی تعلیم، اسلامی تربیت، ایمانی شائستگی اور انسانی عادات وآداب کی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی ضرورت مچھلی کے لیے پانی کی ہے، تعلیم وہ نسخہ? کیمیا ہے، جس سے مُردوں کی مسیحائی عمل میں آسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ احادیت میں تعلیم کے حصول کی افادیت واہمیت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ تعلیم ایسی کنجی ہے جس سے کامیابوں کے تمام تالوں کو کھولا جاسکتا ہے۔ اس لئے ہر دور میں اس کی سب سے زیادہ اہمیت رہی اور وہی قوم اس دنیا میں اپنا نام، مقام اور اہمیت درج کراسکی جس کے یہ زیور تھا۔ تعلیم کے بغیر نہ تو کوئی قوم آگے بڑھی ہے اور نہ ہی کوئی کارنامہ انجام دے سکی ہے۔
خداوند قدوس نے دنیا کو آباد رکھنے کے لیے حضرت آدم? کے ساتھ حضرت حواء کو بھی پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور ایک تناسب سے مرد وخواتین کی تخلیق ہوتی رہی۔مردوں کی تعلیم پر ابتدا آفرینش سے ہی زور دیا جاتا رہاہے اور اس طبقہ کا ایک حصہ کسی نہ کسی درجے میں ہر دور میں تعلیم حاصل کرتا رہا ہے۔ اگر کسی صنف کو اس دولت سے محروم کیا گیا تو عورت کی ذات تھی۔ پہلے خواتین کے بارے میں معاشرہ کا نظریہ انتہائی پیچیدہ تھا معاشرہ خواتین کو صرف ایک شے تصور رکرتا تھا اس کے علاوہ اس کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آتا تھا اگر معاشرے میں خواتین تعلیم یافتہ ہوں گی تو اس سے سب سے زیادہ بھلا معاشرے کا ہوگا۔ کیوں کہ ایک تعلیم یافتہ خاتون پورے خاندان کو تعلیم یافتہ بناسکتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی ناخواندہ خاتون ہے اس سے خاندان جہالت کے دلدل میں پہنچ جاتا ہے۔ اسی لئے اسلام میں تعلیم کو مرداور عورت دونوں پر فرض قرار دیا گیا اور جگہ جگہ اس کی اہمیت بیان کی گئی۔
بقول نپولین بونا پارٹ:۔ ’بہترین قومیں بہترین مائیں ہی بنا سکتی ہیں‘ تعلیم نسواں سے کسی ملک میں معاشی واقتصادی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔ اسی طرح کسی قوم کی ترقی وخوشحالی کا انحصار عورت و مرد کی تعلیم پر مبنی ہے۔ عورتوں کی بنیادی تعلیم کا مقصد انہیں علم سے آگاہ ہی اور ان کی اچھی صلاحیتوں کا اُجاگرکرنا ہے، ان کے ذہن کے بند دریچوں کو کھولنا ہے۔ جس معاشرے میں عورتیں تعلیم یافتہ ہوتی وہ معاشرے ترقی کی راہ پر گامزن ہیں۔اگر چہ تعلیم اور خواندگی کے لحاظ سے پوری ریاست جموں کشمیر اور بالخصوص آزاد کشمیر ہمیشہ سے سر فہرست ہی رہا ہے لیکن ریاست بھر میں خواتین کے لیے اعلیٰ تعلیم کے مواقع نسبتاً کم تھے۔ تعلیمی اداروں میں روایتی سیاست اور موجودہ دور کی بڑھتی ہوئی بے راروی کی وجہ سے والدین پریشان تھے۔ اگر چہ مخلوط جامعات موجود تھی لیکن ایک قبائلی اور مذہبی پس منظر رکھنے کی وجہ سے آزاد کشمیر کے لوگ عموماً یہ پسند نہیں کرتے تھے کے وہ اپنی بچیوں کو مخلوط نظام تعلیم کا حصہ بنائیں۔ اس خاص پس منظر کو سامنے رکھ کر ابتدائی طور پر 2012 میں ویمن یونیورسٹی باغ کے قیام اور اس کو چلانے کی کوشش ہوئی لیکن مختلف وجوہات کی بنیاد پر اس میں کامیابی نہ مل سکی اور پھر جب 2014 میں اس کے مستقل وائس چانسلر کی تقرری ہوئی تو یہ یونیورسٹی زمیں پر نظر آنے لگی۔
اور آج سے ٹھیک 11 سال قبل 26 نومبر 2014 کو اس کے پہلے اکیڈمک سیشن کا افتتاح کیا گیا تھا۔ اور اس سفر کی ابتداٗ ہوئی تھی جو محض 170 طالبات، 8 ڈگری پروگرامز اور چند فیکلٹی ممبران، پر مشتمل تھا۔
آزاد کشمیر جیسے خطہ میں جہاں سیاسی مداخلت اور دیگر مسائل کی وجہ سے سے باغ جیسے علاقہ میں ریاست بھر بلکہ پاکستان بھر کی طالبات کے لیے جامعہ کا قیام کوئی آسان کام نہ تھا. آزاد کشمیر میں قائم باقی سب جامعات پہلے ایک کیمپس کی صورت میں موجود تھے لیکن یہ واحد یونیورسٹی تھی جس کو بالکل بنیاد سے اور بغیر کسی اثاثے کے شروع کیا گیا۔ اور اس میں سابقہ اور موجودہ وائس چانسلر کی جانفشانی اور قیادت نے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کیا اور اب یہ ایک ایسی حقیقت کا روپ دھار چکی ہے جو آنے والی نسلوں کو تیار کر رہی ہے۔
وہ سفر کہ جو کچھ سال قبل:
170 طالبات سے شروع ہوا تھا وہ اب ہزاروں طالبات تک جا پہنچا ہے۔
4 اساتذہ سے شروع ہوا تھا وہ اب 120 کوالیفائڈ اساتذہ تک جا پہچا ہے۔
2 ملین کے بجٹ سے شروع ہوا تھا وہ اب تقریبا 600 ملین تک جا پہنچا ہے۔
ایک انچ زمین کیبغیر شروع ہوا تھا لیکن اب یونیورسٹی ہزاروں کنال اراضی موجود ہے۔
* بغیر کسی کلاس روم کے سٹارٹ ہوا تھا اج اپنی سٹیٹ آف دا آرٹ عمارات موجود ہیں اور خوش قسمتی سے آج 26 نومبر کے دن ہی ان عمارات میں شعبہ کمپیوٹر سائنس منتقل ہو کر کلاسز کا آغاز ہو چکا ہے۔
* بغیر کسی لیبارٹری سے شروع ہوا تھا اور اب ہر شعبہ کی جدید سامان سے آراستہ لیبارٹریز موجود ہیں۔* اربوں روپے کے تعمیراتی پراجیکٹس زیر کار ہیں۔ * صرف 3 پی ایچ ڈی ٹیچرز موجود تھے لیکن اب 60 فیصد پی ایچ ڈی ٹیچرز جن میں سیبہت سے فیکلٹی ممبران اسی یونیورسٹی کے فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام پر بیرون ممالک اور اندرون ملک سے پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔* بغیر کسی گاڑی کے شروع ہوا تھا اور اب طالبات کے لیے ے 9 کوسٹرز، ہایی ایس، ایمولینس، اور 8 کاروں پر مشتمل ٹرانسپورٹ موجود ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹٰی میں: بی ایس سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے ڈگری پروگرام جاری ہیں۔بیرون ممالک اور پاکستان میں موجود جامعات اور ریسرچ اداروں کے ساتھ تعلیم و تحقیق کے تبادلہ سے متعلق معاہدو جات موجود ہیں۔یہاں کے فیکلٹی ممبران دنیا کی بہترین جامعات سے جو امریکہ، جرمنی، چین اور دیگر ترقی یافتہ ممالک سے اپنی ریسرچ اور PhD کر کے واپس یونیورسٹی کو جوائن کر چکے ہیں،۔انہی پروگرامات کے تحت گزشتہ سا لوں میں جامعہ کی 5 طالبات اور 4 اساتذہ امریکہ میں جا کر تربیت حاصل کر کے واپس آچکی ہیں اور ہر سال اساتذہ و طالبات اسی پروگرام کے تحت امریکہ جائیں گے۔ * طالبات کے لیے کنیٹین اور سیکورٹی کا سسٹم موجود ہے اور سی سی ٹی وی کیمروں سے تمام اہم مقامات کی 24×7 منیٹرنگ کی جاتی ہے۔ * 200 سے زاہد طالبات کے لیے ہونیورسٹی کے سرکاری ہاسٹل کی سہولت مل چکی۔ خواتین ملازمین کو ایک آرام دہ ماحول فراہم کرنے کے لیے یونیورسٹی مین ڈے کئیر سنٹر موجود ہے۔ کسی چھوٹی بیماری کی صورت میں میڈیکل سنٹر اور ڈاکٹر موجود ہے۔ طالبات کی ذہنی نشونما کے لیے کھیلوں کی تمام سہولیات میسر ہیں۔جامعہ میں مختلف قسم کے سیمنارز اور ورکشاپس کی صورت میں طالابت کی سافٹ سکلز بہتر بنانے کا مکمل میکنزم موجود ہے۔ پاکستان کا پہلا ویمن سافٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک ویمن یونیورسٹی آزاد جموں کشمیر باغ میں قائم کیا گیا ہے جس کی فنڈگ پاکستان سافٹ وئیر ایکسپورٹ بورڈ کر رہا ہے۔ یہ سافٹ وئیر ٹیکنالوجی پارک یونیورسٹی کے اندر طالبات کے لیے دوران تعلیم نہ صرف ملازمت کے مواقع مہیا کرے گا بلکہ ریاست و ملک کی معشیت کو سنوارنے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس سارے عرصہ میں یونیورسٹی نے تعلیم و تحقیق کے میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا ہے۔ یہاں سے فارغ التحصیل طالابت زندگی کے مختلف شعبوں میں کار ہاے نمایاں سر انجام دے رہیں اور کچھ اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔اس سب کے نتیجہ میں یہ یونیورسٹی اس سال ٹائمز ہائیر ایجوکیشن رینکنگ میں اپنی جگہ بنا چکی اور دس سال کے مختصر عرصہ میں معیار تعلیم میں یہ دنیا کی ٹاپ 600 جامعات میں، پاکستان میں 32 ویں نمبر پر، اور آزاد کشمیر میں دوسرے نمبر پر موجودے ہے۔یونیورسٹی میں پیلی بین الاقوامی تحقیقاتی کانفرنس منعقد ہو چکی ہے جس میں دنیا کے مختلف ممالک سے مندوبین نے شرکت کی۔ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار ایک روزہط ٹیکنالوجی کانفرنس کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔ یونیورسٹی کے مشن میں نہ صرف تعلیم بلکہ سماجی و اقتصادی ترقی کے لیے خواتین کو تیار کرنا بھی شامل ہے۔ یہاں کے اساتذہ اور طلباء اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (SDGs) کی حمایت میں متعدد سرگرمیاں انجام دے رہے ہیں، جن میں سیمینارز، رضاکارانہ سرگرمیاں، اور دیگر شعور بیداری کے پروگرام شامل ہیں۔یہاں طالبات کو ایک پر وقار اور محفوظ ماحول میسر ہے اور وہ مخلوط نظام تعلیم کی برائیوں سے بالکل دور ہے اپنی اپنی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ ویمن یونیورسٹی آزاد جموں کشمیر باغ اس وقت تعلیم کے تمام میدانوں میں اپنی خدمات پیش کر رہی ہے۔طالبات اگر سائنس کے میدان میں بنیادی مضامین میں آگے بڑھ کرنت نئے رازوں سے پردہ اٹھانا چاہتی ہیں تو یہ یونیورسٹی کیمیا، طبیعات نباتات،حیوانات، بائیوٹیکنالوجی، اور ریاضی کے شعبہ جات میں بی ایس، ایم فل اور پی ایچ ڈی پروگرامز تک آفر کر رہی ہے۔ سماج کو درپیش مسائل اور ملک کا مثبت امیج بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے سماجی علوم اور علم و ادب کے میدان میں شعبہ انگریزی، معاشیات، تعلیم، نفسیات، بین الاقوامی تعلقات، منیجمنٹ سائنسز، سپورٹس سائنسزو جسمانی تعلیم میں مختلف ڈگری پروگرامز میسر ہیں۔وطن عزیز میں صحت کے مسائل کی وجہ سے طب کی دنیا کے پروفیشنلز تیار کرنے کے لیے شعبہ الائیڈ ہیلتھ سائنسز میں ڈینٹل ٹیکنالوجی، ریڈیالوجی، آپریشن ٹھیٹر سائسز اور دیگر متعلقہ شعبوں میں بی ایس پروگرام موجود ہیں۔ پاکستان کء موجودہ معاشی مسائل کا حل آئی ٹی کی صنعت سے وابستہ ہے اوراگر آپ جدید ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کا علم حاصل کر کے ملک کے معاشی مسائل کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو ویمن یونیورسٹٰی باغ کمپیوٹر سائنسز اور ڈیٹا سائنسز میں بی ایس اور ایم ایس پروگرام آفر کر رہی ہے۔
اس وقت ویمن یونیورسٹی کی فیکلٹی آزاد کشمیر کی تمام جامعات کے ہم پلہ یا ان سے آگے ہے، ہر شعبہ میں بیرون ممالک اور اندرون ملک کے بہترین تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل پی ایچ ڈی اساتذہ اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ تمام شعبہ جات کی جدید ترین لیبارٹریز ا کے علاوہ ہزاروں کتابون پر مشتمل لائبریریز موجود ہیں۔ یونیورسٹی کی مستقل عمارات کی تعمیر کے لیے 2 میگا پراجیکٹس زیر کار ہیں جو تقریباً مکمل ہونے کے قریب ہیں جن میں اکیڈمک بلاک، ایڈمینسٹریشن بلاک،، ہاسٹلز، لائبریری، میڈیکل سنٹر، کیفے ٹیریا، ملٹی پرپز ہال، اور دیگرعمارات شامل ہیں،۔غرضیکہ گزشتہ 11 سالوں میں اس یونیورسٹی نے جو بغیر کسی بنیاد سے شروع ہوئی تھی اور باغ جیسے ریموٹ ایریا میں ہر میدان میں بے پنا ترقی کی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین اس پر اعتماد کرتے ہوے اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے اس ادارہ کا انتخاب کریں تاکہ وہ ایک باعزت اور محفوظ ماحول میں اپنی تعلیم حاصل کر سکیں۔
0