ڈیلی پرل ویو، ہمیشہ کہا جاتاہے کہ پاکستان ایک غریب ملک ہے اکثریت آبادی کا حال اور حالت ِ زار دیکھ کرہر دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کو یقین آجاتاہے کہ واقعی پاکستان غریب ملک ہے لیکن دنیاکو اس بات پرمطلق یقین نہیں۔۔۔اب تو کوئی اعتبار بھی نہیں کرتا۔ جب قیمتی لباس میں ملبوس پاکستانی وفد بیرونی ممالک میں اپنے ہم وطن متاثرین کیلئے امدادکیلئے بات کرتے ہیں تو دنیا ہم پرہنستی ہے یہ ٹھاٹھ اور امداد کی اپیل۔۔۔واہ بھئی واہ۔۔یہی حال غیرملکی سرمایہ کاری کا ہے جب ہمارے بیشتر حکمرانوں نے اربوں کھربوں سے اپنے کاروبار لندن، دوبئی، ملائشیاء،سعودی عرب اور امریکہ میں شروع کررکھے ہیں تو کون پاگل پاکستان میں سرمایہ کاری کرے گا؟ حکمرانوں کی اسی منافقت نے ہمیں دنیا میں تنہا کردیا ہے۔۔۔ ایک سوئس بینک ڈائریکٹر کا کہناہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے98 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں یہ رقم پاکستان میں انوسٹ کردی جائے تو30سال کیلئے پاکستان ٹیکس فری بجٹ پیش کر سکتاہے6کروڑ پاکستانیوں کیلئے روزگار+ملازمتیں دی جا سکتی ہیں 500سے زیادہ پاور پراجیکٹ کے ذریعے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بجلی فری دی جا سکتی ہے، کراچی، پشاور سمیت ملک کے کسی بھی کونے سے اسلام آباد تک چاررویہ سڑکوں پر مشتمل نئی ہائی وے بنائی جا سکتی ہے یا ہر پاکستانی کو چار سال تک20000روپے ماہانہ وظیفہ دیا جا سکتاہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں سے نجات بھی مل سکتی ہے۔ اًس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ پاکستان میں: مائیکرو سافٹ جولائی 2025 میں بند ہوگیا۔ گل احمد نے اپنا ٹیکسٹائل ایکسپورٹ بزنس بند کردیا۔ کار سروس کریم جولائی 2025 میں بند ہوگئی۔ پراکٹر اینڈ گیمبل نے بزنس ٹھپ کرنے کا اعلان کردیا۔ سیمنز ٹیکنالوجیز نے 2023 میں اپنا کاروبار بند کردیا۔ شیل پاکستان نے بزنس ختم کردیا۔ ٹوٹل پارکو نے جون میں اپنا کاروبار ختم کردیا۔ ٹیلی نار نے پاکستان میں کاروبار بند کردیا۔ سانفوئی نے اپنا کاروبار بند کردیا۔ فائزر نے اپنی پروڈکشن بند کردی۔ واوا کارز نے اپنا کاروبار بند کردیا۔ ہنڈا، ملت ٹریکٹرز، سوزوکی موٹرز اور نشاط چونیاں نے بار بار اپنی پروڈکشن بند کی۔ انڈس موٹرز، امریلی سٹیل، اور جی ایس کے نے بار بار پروڈکشن بند کی۔ ٹرک ان، سینڈوسو، ریٹالیو نے اپنے کاروبار بند کردئیے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی پروڈکشن پچاس فیصد کم ہوگئی۔ گندم کے کسان کو دو سال لگاتار امدادی قیمت نہیں ملی دیگر معاشی، سیاسی، سفارتی اور امن و امان سے جڑے مسائل اپنی جگہ، لیکن مبارک ہو پنجاب میں تصویروں والی الیکٹرک بسیں آگئیں ہیں۔ شنیدہے کہ پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ اجلاس سے پہلے بڑی شرط پوری کر دی۔پاکستان میں اس وقت 1کروڑ 88 لاکھ سے زیادہ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق وزارت خزانہ نے گورننس اینڈ کرپشن ڈائیگناسٹک اسیسمنٹ تکنیکی رپورٹ جاری کر دی ہے، جس کے مطابق کرپشن پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ رپورٹ میں ٹیکس نظام، سرکاری اخراجات، احتساب، عدالتی نظام میں سنگین مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ طاقتور یا سرکاری اداروں سے جڑے گروہ کرپشن کی سب سے خطرناک شکل ہے۔ پاکستان میں کرپشن کا دیرینہ مسئلہ ملکی ترقی کوشدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف سے بار بار قرض لینے کے باوجود بنیادی مسائل برقرار ہیں۔ پاکستانی عوام معیار زندگی میں ہمسایہ ملکوں سے پیچھے رہ گئے ہیں۔ حکومتی فیصلہ سازی میں شفافیت کی کمی سنگین مسئلہ بن چکی ہے جب کہ اینٹی کرپشن اداروں کی کمزور کارکردگی سے احتساب کا عمل متاثر ہے۔ سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشی پالیسیوں کی تیاری میں اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ ریاستی نظام میں گورننس کی کمزوریاں کرپشن کے مواقع بڑھاتی ہیں، کرپشن منصفانہ مقابلے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 11.1 فیصد کاروباری اداروں نے بدعنوانی کو کاروبار کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ جنوبی ایشیا کے اوسط 7.4 فیصد سے کافی زیادہ ہے۔ کرپشن کی وجہ سے خرچ غیر موثر، ٹیکس کم، عدالتی نظام پر اعتماد کم ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں میں جوابدہی کا مؤثر نظام موجود نہیں۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ میں گورننس بہتر بنانے کے لیے شفاف اور واضح قوانین لانے کی سفارش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عوام اور کاروبار کے لیے معلومات تک رسائی مشکل بنی ہوئی ہے۔ غیر ملکی تجارت کے ضابطے ضرورت سے زیادہ سخت ہو گئے ہیں۔ نجی شعبہ حکومتی پابندیوں کے باعث اپنی مکمل صلاحیت استعمال نہیں کر پا رہا۔ رپورٹ میں پبلک سیکٹر کی کارکردگی بہتر کرنے کے لیے جامع اصلاحات بھی تجویز کی گئی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بہتر گورننس سے سرمایہ کاری بڑھے گی اور کرپشن میں نمایاں کمی آئے گی۔ واضح رہے کہ یہ رپورٹ آئی ایم ایف کے 7 ارب ڈالر قرض پروگرام کا حصہ ہے۔ آئی ایم ایف، عالمی بینک نے حکومتی درخواست پر 8 ماہ میں کرپشن و گورننس کا جائزہ لیا ہے جب کہ حکومتی اقدامات سے معیشت میں استحکام آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرائمری سرپلس، زرمبادلہ زخائر میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی آئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے چنگل سے نکلنے کے لئے اپنے دسائل پر انحصار کرنا ہو گا، ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ جب تک پاکستان کے تمام قرضے ا دا نہیں کردئیے جاتے وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہ، ہر قسم کی مراعات،پروٹوکول اور الاؤنسز بندکردئیے جائیں مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے تمام تر وسائل پر قابض اشرافیہ کو یہ تجویز پسند نہیں آئے گی اور وہ دل و جان سے ایسی ہر تجویز کی مخالفت کریں گے کیونکہ وزیروں، مشیروں اور ارکان اسمبلی کا تعلق خواہ کسی بھی پارٹی سے ہو ان کے مفادات ایک ہیں اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بیوروکریسی کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جانا ناگزیر ہے کیونکہ اس طبقہ کی تمام آشائسیں پاکستان کے دم سے ہیں پاکستان ہے تو ہم سب کا مستقبل تابناک اور روشن ہے ۔حکومت کو اب زبانی جمع تفریق کی روش ترک کرنا ہوگی قرضوں کے حصول اور ادائیگی کے طریقہ ئ کار طے کرنے کے لئے ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہیے ورنہ پاکستان کا بچہ بچہ مقروض رہے گا اور آنے والی نسلیں کبھی ہمارے حکمرانوں کومعاف نہیں کریں گی۔ اس ساری صورت ِ حال کے تناظرمیں اس زمینی حقیقت سے نظر چرانا ممکن نہیں پاکستان پر واجب الادا قرضوں کی وجہ سے آنے والی نسلوں کا مستقبل عالمی طاقتوں کے پاس گروی رکھ دیا گیاہے سر ِ دست کوئی ایسا فارمولا، حکمت ِ عملی یا منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی جس کے تحت ان قرضوں سے نجات مل جانے کا کوئی راستہ بن سکے جب تک پاکستان ان قرضوں سے نجات حاصل نہیں کرتا عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ سے آزادی ممکن نہیں ا ورپاکستان کی معاشی،معاشرتی اور اقتصادی حالت بہتر ہونے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔
0
- فیس بک
- ٹویٹر
- واٹس ایپ
- ای میل