0

آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی کا اجلاس، پیپرا رولز کی حد 5 لاکھ کرنے،اضافی ٹیکس واپس لینے کا مطالبہ

اسلام آباد (پ. ر)آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی نے آزادکشمیر میں پرنٹ میڈیا کے زندہ رہنے کے معدوم ہوتے امکانات پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ پیپرا رولز کی حد 30 لاکھ سے کم کر کے 5 لاکھ کی جائے۔میڈیا انڈسٹری پر لاگو کئے گئے اضافی ٹیکس واپس لیے جائیں۔ایک ماہ تک ترقیاتی میزانیہ کے واجبات کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔اخبارات کے ڈیجیٹل چینلز /ویب سائٹ کو میڈیا لسٹ میں شامل کیا جائے۔ پرنٹ میڈیا عوام کی آواز، حکومت اور عوام کے درمیان موثر رابطے کا ایک ذریعہ ہے۔ پرنٹ میڈیا کو موجودہ مالی مشکلات سے نکالنا حکومت کی ترجیحات میں شامل کرنا ریاست میں آزادیِ اظہارِ رائے، تحریک آزادی کو اجاگر کرنے اور علوم و فنون کے فروغ میں معاون ہو گا۔ یہ مطالبات یہاں نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی کے 13 ویں جنرل کونسل اجلاس میں کئے گئے۔8گھنٹے زیادہ طویل جاری رہنے والے اجلاس میں تینوں ڈویژن سے شائع ہونے والے اخبارات /جرائدکے پبلشرز اور مدیران نے اخبارات کو درپیش مسائل پر تفصیلی غورخوص کیا گیا۔حکومت پریس تعلقات کی مضبوطی، ڈسپلینری/ سکرونٹی کے لئے صدر امجد چوہدری،سردار ذوالفقار، ظہیر جگوال،آفاق شاہ پر مشتمل کمیٹی کی تشکیل کی منظوری دی گئی۔ اجلاس کی صدار ت صدر اے کے این ایس امجد چوہدری نے کی جبکہ نظامت کے فرائض سیکرٹری جنرل ظہیر جگوال نے انجام دئیے۔ اجلاس میں سابق صدور اے کے این ایس سردار زاہد تبسم، عامر محبوب، سید محمد اکرم شاہ،سردار حمید،چوہدری جاوید اقبال، شیر باز منیر،شفقت ضیاء،نثار کیانی،شہزاد راٹھور،راجہ کفیل، اعجاز خان،شہزاد خان،سجاد شاہ، اطہر مسعود وانی، سردار ذوالفقار،سید آفاق شاہ،ابرار حیدر، راجہ امجد،ذوالفقار بٹ،خواجہ سرفراز،عابد عباسی،غلام رضا کاظمی،شہزاد لولابی، خالد چوہدری، رمضان چغتائی، نعیم بلوچ،عامر شہزاد،ہارو ن الرشید،زاہد بشیر، بشیر عثمانی،ساجد چوہدری،عابد عباسی،محی الدین ڈار،عابد صدیق،مسعود حنیف،یوسف مغل اور دیگر نے خطاب کیا۔اجلاس میں متفقہ طور پر قراردادیں منظور کی گئیں، جن میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جبرو استبداد،نہتے کشمیر یوں پر مظالم،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، میڈیا پر قدغن کی مذمت اور مقبوضہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی بنیادی حق خود ارادیت کے حصول کے لئے جرات مندانہ جدوجہد کے لئے قلمی محاذ پر اپنی پیہم اور پرعزم حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ایک قرارداد میں نہتے فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر عالمی اداروں اور سلامتی کونسل کے کردار کی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی۔ایک اور قرارداد میں کہا گیاکہ حکومت پریس تعلقات اے کیاین ایس کے ایجنڈے پر ہمیشہ ایک اہم نکتہ رہے ہیں۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے جو کام ریاستی اخبارات کر رہے ہیں وہ کوئی فارن مشن بھی نہیں کر سکتا، دنیا کے پاس کشمیر کی تازہ صورتحال جاننے کیلئے ریاستی اخبارات کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ریاستی اخبارات تحریک آزادی کے ابلاغی محاذ پر صف اول کا کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم دنیا کے سامنے بے نقاب اور آزادحکومت کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کئے جانے والے اقدامات کو اجاگر اور ریاستی عوام کے مسائل کو حکومتی ایوانوں تک پہنچانے لئے بھرپور کر دار ادا کر رہے ہیں۔ میڈیا ریاست کا چوتھاستون ہے اور ریاست کے استحکام کے لئے اس ستون کا مستحکم ہونا بھی ضروری ہے،حکومت اخبارات کے اشتہارات کے لئے مختص فنڈز کو ریاستی میڈیا پر خرچ کرے اور اخبارات و جرائدورسائل کو سرکاری اشتہارات کی پالیسی، اشتہارات کے واجبات کی بروقت ادائیگی یقینی بنائے۔ ایک اور قرارداد میں کہا گیا کہ اخبار کے بنیادی خام مال یعنی نیوز پرنٹ کی قیمت میں تقریباً دگنا اضافہ ہو گیا ہے۔ طباعت میں استعمال ہونے والی دیگر کئی اشیاء بھی امپورٹ ہوتی ہیں، ڈالر کی قیمت بڑھنے سے ان کی درآمدی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ طباعتی لاگت میں جتنا اضافہ ہوا ہے اخبارات بوجوہ اپنی قیمت اس تناسب سے نہیں بڑھا سکتے۔ ایسے میں،پیپرا رولز کی وجہ سے سرکاری اشتہارات میں کمی اور شائع شدہ اشتہارات کے اکثر واجبات کا نہ ملنا اور ادائیگیوں میں تاخیرریاستی اخبارات و جرائد کے لئے شدید بحران بلکہ بقا کا مسئلہ بن گیا ہے۔ حکومت آزادی اظہار رائے کا احترام کرے اور ریاست کے چوتھے ستون کو مضبوط بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے۔آزادکشمیر کی مقامی صحافت اصل جرنلزم پر یقین رکھتی ہے تاہم مقامی میڈیا کے واجبات کی ادائیگی میں تاخیر معاشی دباو? کے مترادف ہے جس سے آزاد صحافت کا بھی کلا گھونٹاجا نے کا احتمال ہے۔ریاستی اخبارات کی غیرجانبداری اور دھار جوں کی توں برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور ہم اس پر کوئی شرط قبول نہیں کریں گے۔مقررین نے کہا کہ ہرانڈسٹری کو کوئی ”سودا“ بھی بیچنا ہوتا ہے۔ صحافت کا سودا ”خبر“ ہے۔ اور ”خبر“ اس وقت بنتی ہے جب کوئی انسان کتے کو کاٹ لے۔انہونی اور معمول سے ہٹ کر ہوا کوئی واقعہ۔میڈیاکا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ جب اپنا ”سودا“ بازار میں لاتا ہے تو ریاست ومعاشرے کے طاقت ور لوگوں کو پریشان کردیتا ہے۔ انہیں اشتعال دلاتا ہے۔ کافی عرصہ برداشت کرنے کے بعد یہ طاقتور لوگ بالآخر کچھ ریڈلائنز کھینچ دیتے ہیں۔ ”خبر“ کیلئے علاقے مختص کردئیے جاتے ہیں۔ ان علاقوں اور حدود سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔اپنے ”سودے“ کو پرکشش رکھنے کیلئے صحافت مگر ”ممنوعہ“ علاقوں میں گھسنے پر ہمہ وقت مجبور رہتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں