0

کشمیر کا فیصلہ بھارتی اسمبلی یا عدالت نے نہیں بلکہ دو کروڑ کشمیریوں نے کرنا ہے، آزاد حکومت

اسلام آ باد (صباح نیوز)ترجمان آزادکشمیر حکومت و وزیرخزانہ عبدالماجد خان نے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ انسانی حقوق سلب کرنے کی بدترین مثال ہے جسے ریاستی عوام مسترد کرتے ہیں۔ بھارتی پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ مقبوضہ کشمیر کے فیصلہ ساز نہیں بلکہ دوکروڑ سے زائد کشمیری اپنی ریاست کے فیصلہ ساز ہیں۔ چوراسی ہزار مربع میل پر پھیلی ریاست جموں و کشمیر ناقابل تقسیم وحدت ہے جس کی وارث ریاستی عوام ہیں۔ ہندوستان جب راجواڑوں میں بٹا تھا تب بھی ریاست جموں و کشمیر ایک وحدت تھی۔ریاست جموں وکشمیر تاریخی طور پر کبھی بھی ہندوستان کا جغرافیائی حصہ نہیں رہا۔ موجودہ آزادکشمیر کی حکومت، اسمبلی کے اندراور باہر تمام سیاسی جماعتیں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی شدید مذمت کرتی ہیں۔ بھارت کی یہ توسیع پسندانہ سوچ خطے میں امن کو درپیش خطرات میں اضافہ کر رہی ہے، بھارتی آئین کی مقبوضہ کشمیر پر بالادستی کسی طور تسلیم نہیں کی جا ئے گی۔بھارتی عدلیہ نے ہندوتوا نظریے کے سامنے سر جھکا کر بھارتی حکومت کے غیر آئینی تسلط کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔رائے شماری کے علاو ہ ریاستی عوام کو کوئی حل قبول نہیں۔بھارتی سپریم کورٹ کے یکطرفہ اور تعصب سے بھرپور فیصلہ کی وجہ سے اقوام متحدہ اورسلامتی کونسل سے منظورشدہ قراردادوں پر کوئی فرق نہیں پڑسکتا، بھارت اس وہم سے باہر نکل آئے، مسلہ کشمیر سلامتی کونسل کی قرادادوں کی روشنی میں ہی حل ہوگا، آزاد جموں و کشمیرمیں قائم بیس کیمپ کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر کے حریت پسند اپنے مظلوم بہن بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے، خطہ میں بھارت انسانی حقوق کی پامالیوں اور جبری تسلط کو دوام بخشنے کے لیے اپنا آخری حربہ بھی استعمال کرچکا، بھارت کو اب منہ کی کھانا پڑے گی، ترجمان آزادکشمیر حکومت و وزیر خزانہ عبدالماجد خان نے بھارتی سپریم کورٹ کے متعصبانہ اور نسل پرستانہ فیصلہ کے ردعمل میں کہا ہے کہ بھارت کی پارلیمانی حقیقت سیکولر ازم پر کھڑی ہے لیکن بھارتی حکومت باالعموم مسلمان اور بالخصوص ریاستی تشخص کو مٹانے، جبری تسلط کے قیام کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ہندوتوا نواز حکومت کے اقدام کو قانونی تحفظ دینے کے لیے سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایک ڈھونگ رچایا اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت انسانی حقوق کا علمبردارہے۔ انھوں نے واضع کیا کہ ہمیں بھارت سے پہلے کوئی امید تھی اور نہ ہی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بھارت کا کوئی ادارہ ریاستی عوام کو کسی قسم کا ریلیف دینے میں آگے بڑھ سکتاہے۔ انھوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں میں بھارتی لوک سبھا سے آرگنائزیشن ترمیمی ایکٹ 2023 اور جموں و کشمیر ریزرویشن ترمیمی ایکٹ 2023 کو منظور کیا گیا ہے۔ ان ایکٹس کی منظوری کا مقصد ریاستی عوام کے جمہوری حقوق سلب کرنا ہے۔ اگست 2019 میں ریاست جموں و کشمیر کے مقبوضہ حصہ کی تقسیم درتقسیم کے لیے جموں و کشمیر خصوصی ترمیمی ایکٹ 2023 منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کی نام نہاد اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ وادی کے لیے 47 اور جموں کے لیے 43 نشستیں مختص کی گئی ہیں۔ انھوں نے کہاکہ پہلے صرف شیڈول کاسٹ کے لیے مخصوص نشستیں تھیں لیکن بھارتی طبقاتی نظام کو دوام بخشنے کے لیے اب شیڈول کاسٹ کے لیے 7 اور شیڈول ٹرائب کے لیے 9 نشستیں مختص کر دی گئی ہیں۔ آزادکشمیرسے بھارت میں جا کر آباد ہونے والوں کے لیے کے لیے بھی ایک نشست اور وادی سے بھارت میں جا کر آباد ہونے والوں کے لیے 2 نشستیں م

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں